پاکستان

فیصل آباد میں درجنوں بے نامی اکاؤنٹس کا انکشاف

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اسٹیٹ بینک سے اکاؤنٹس کی بائیو میٹرک تصدیق کی درخواست کی ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کے مقامی دفتر نے فیصل آباد کے کلاک ٹاور بازار اور دیگر علاقوں میں قائم بینکوں میں درجنوں بے نامی اکاؤنٹس کا انکشاف کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے ترجیحی بنیادوں پر بائیومیٹرک کےذریعے اکاؤنٹس کی تصدیق کی درخواست بھی کی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کو درخواست دینے کا فیصلہ شہیر ٹیکسٹائل کیس میں تحقیقات کے دوران بینکوں کا کردار سامنے آنے کے بعد کیا گیا۔

14 مارچ کو ایف بی آر نے 20 سے زائد افراد کے خلاف ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا تھا جس میں 2 بینک منیجر بھی شامل تھے۔

ایف بی آر نے 21 کروڑ 20 لاکھ روپے کے ٹیکس فراڈ کے الزام میں 9 مشتبہ ملزمان کو بھی گرفتار کیا تھا۔

تفتیش کے دوران یہ انکشاف سامنے آیا کہ بے نامی اکاؤنٹس محمد وسیم، یاسر مقبول، محمد عثمان او بابر علی کے نام سے نجی بینکوں کی شاخوں میں مونٹگمری بازار، باوانا بازار، لیاقت ٹاؤن، عبداللہ پور، گلبرگ کالونی، کارخانہ بازار، پیپلزکالونی اور سوتر منڈی میں کھولے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر نے بے نامی جائیداد رکھنے والوں کو سخت سزائیں تیار کرلی

یہ اکاؤنٹس سپلائرز کو سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی سیکشن 73 کی تعمیل دکھانے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بےنامی اکاؤنٹس کے ذریعے کروڑوں روپے کے کاروبار کا طریقہ کلاک ٹاور کے بازاروں میں نیا نہیں ہے جسے اس ضلع کا تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے جو پاکستان کا ٹیکسٹائل دارالحکومت کہلاتا ہے۔

بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے کاروبار کرنے والے افراد کے طریقہ کار سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ان میں سے ایک بڑی اکثریت اکاؤنٹس کے لیے ٹی بوائے، ڈرائیور اور دیگر ملازمین کواستعمال کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کئی مرتبہ گھر بیٹھے ماہانہ خطیر رقم کمانے سے متعلق اشتہارات بھی میڈیا میں گردش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ذرائع نے کہا کہ ایسے افراد کے شناختی کارڈ بے نامی اکاؤنٹس کے لیے استعمال ہوتے تھے اور اکاؤنٹ ہولڈرز کے دستخط بینک حکام کے ساتھ قانونی سہولت کے ذریعے تبدیل کیے گئے تھے۔

اسٹیٹ بینک کو لکھے گئے خط میں ایف بی آر نے کہا کہ ڈائریکٹر آف انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن فیصل آباد کی جانب سے اسی طرح کی کارروائیوں میں ایک درجن سے زائد بینک اکاؤنٹس ایسے پائے گئے سیلز ایکٹ 1990 کے سیکشن 73 کے تعمیل ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر کی ناقص کارکردگی، 5 ماہ میں صرف ایک غیر ملکی اکاؤنٹ سے 12 لاکھ ڈالر وصول

خط میں کہا گیا کہ ’ ان میں سے اکثر اکاؤنٹس ٹیکس فراڈ کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں جو کلاک ٹاور کے علاقے میں 8 بازاروں میں قائم مختلف بینکوں میں موجود ہیں‘۔

ایف بی آر نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے بائیومیٹرک تصدیق سے متعلق ہدایات جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔

ٹیکس فراڈ سے متعلق تحقیقات کرنے والے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’ لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ شناختی کارڈ، چیک بک اور ایف بی آر کی جانب سے جاری کیا گیا لاگ اِن پاسورڈ کو کیسے محفوظ رکھا جائے، یہی ٹیکس فراڈ کے بنیادی ہتھیار ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو لازمی ایک ایسا طریقہ کار متعاف کروانا چاہیے جس کے تحت کسی فرد یا ادارے کو دوسری مرتبہ ایک ہی نام سے رجسٹر کروانے کی اجازت نہ ہو۔

عہدیدار نے کہا کہ جیسےقومی ٹیکس نمبر منفرد ہے اسی طرح کاروبار کا نام بھی منفرد ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی بینک کو دھوکا دینے، ایف بی آر اور جن کمپنیوں سے کاروبار کررہے ہیں ان سے فراڈ کی کوشش نہ کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ شہیر ٹیکسٹائل کیس میں فراڈ کرنے والوں کی جانب سے کمپنی کا قومی ٹیکس نمبر استعمال کیا گیا تھا جبکہ وہ کمپنی کاروبار نہیں کررہی تھی۔

تاہم نہ تو مالک نے ایف بی آر ریکارڈ میں کمپنی کو بلاک کروایا اور نہ ہی اس کا آفیشل اکاؤنٹ معطل کیا تھا۔