دنیا

امریکا کی 'ڈیل آف دی سنچری'میں خودمختار فلسطینی ریاست شامل نہیں، رپورٹ

منصوبے میں فلسطینیوں کی زندگی میں بہتری لانے اور اسرائیل کے سیکیورٹی خدشات پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے،امریکی اخبار

امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے لیے ’صدی کا معاہدہ ‘ سے تعبیر کیے گئے امریکی معاہدے میں ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام شامل نہیں ہوگا۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق فلسطین کے امن سے متعلق معاہدے کے مرکزی عناصر سے واقف ذرائع نے بتایا کہ معاہدے میں فلسطینیوں کی زندگی میں عملی بہتری لانے کی تجاویز شامل ہیں لیکن اس میں محفوظ فلسطینی ریاست کا قیام شامل نہیں۔

رواں برس کے آخر میں وائٹ ہاؤس کی جانب سے طویل انتطار کے بعد یہ امن معاہدہ جاری کیے جانے کا امکان ہے جس کی صدارت امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنر کر رہےہیں ۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق حکام اس منصوبے کو خفیہ رکھ رہے ہیں، جیرڈ کشنر اور دیگر حکام کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن کی ابتدائی کوششوں کے آغاز کے تحت اس میں ریاست کے قیام کا عنصر شامل نہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے میں اسرائیل کے سیکیورٹی خدشات پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے گولان ہائٹس پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرلیا

یہ امن معاہدہ خصوصا غزہ کی پٹی پر بڑے پیمانے پر انفراسٹر کچر اور صنعتی تعمیرات کی تجاویز پر مبنی ہے۔

اس منصوبے کو کامیاب کرنے یا اس کے آغاز کے اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک کا تعاون بھی ضروری ہوگا۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق جیرڈ کشنر کے معاہدے سے واقف عرب حکام کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی خاص پیش کش نہیں کی گئی بلکہ اس منصوبے میں فلسطینی شہریوں کےلیے معاشی مواقع پیدا کیے جائیں گے اور متنازع علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کیا جائے گا۔

جیرڈ کشنر اور دیگر امریکی حکام نے امن اور اقتصادی ترقی کو عرب میں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور حاکمیت کے بجائے فلسطین کی خودمختاری سے متعلق ورژن کی قبولیت سے جوڑا ہے۔

اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ وہ مغربی کنارے میں قائم یہودی آبادکاروں کو اسرائیل میں ضم کردیں گے۔

نیتن یاہو کے اس بیان نے سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کے اس خیال کو تقویت پہنچائی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ فلسطین کی مقبوضہ زمین پر اسرائیل کے تسلط کو وسیع کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطین، ترکی کی مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے عہد کی مذمت

خیال رہے کہ جیرڈ کشنر نے فروری میں اسکائی نیوز عربیہ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ حقیقت کیا ہے اور 2019 میں ان مسائل کا شفاف حل کیا ہے تاکہ لوگ بہتر زندگی گزار سکیں‘۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے سینئر عہدیدار نے بتایا کہ ’ ہم مانتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک منصوبہ ہے جو شفاف، حقیقی اور عمل درآمد کے قابل ہے جس سے لوگ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ماضی کی کوششوں کو دیکھا اور دونوں فریق اور خطے کے شراکت کے نظریات سے اخذ کیا کہ ماضی میں کئی گئی کوششوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا لہٰذا ہم نے ایک غیرروایتی طریقہ اختیار کیا ہے جس کی بنیاد حقیقت سے چھپا کر نہیں بلکہ سچ بول کر رکھی گئی ہے‘۔

خیال رہے کہ دسمبر 2017 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی اعلان کے بعد فلسطینی حکام نے ٹرمپ انتطامیہ سے رابطہ منقطع کردیا تھا۔

تاہم عرب اور یورپی ممالک سے تبادلہ خیال میں جیرڈ کشنر نے اس بائیکاٹ کو غلط قرار دیا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق جیرڈ کشنر نے فروری میں مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران سعودی شرکا کو کہا تھا کہ ٹرمپ اپنی بات پوری کرتے ہیں اور امن کے قیام میں ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل اور فلسطین امن معاہدے کیلئے تیار ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ

ذرائع کے مطابق 26 فروری کوریاض میں ہونے والے اجلاس میں سعودی دانش ور، کالم نگار ، حکومتی ارکان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے منتخب کیے گئے شرکا موجود تھے۔

سعودی ولی عہد کے جیرڈ کشنر سے قریبی تعلقات ہیں اور وہ اپنے والد شاہ سلمان کے مقابلے میں امریکی امن منصوبے کے زیادہ حامی ہیں۔

اجلاس سے واقف شخصیت نے بتایا کہ جیرڈ کشنر نے تنقید اور اس حوالے سے سوالات سنے لیکن وہ تنقید سے متعلق سوچنا نہیں چاہ رہے تھے اور اپنا دفاع کررہے تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ ’وہ یہ جان کر حیران دکھائی دیے جب انہیں علم ہوا کہ وہاں موجود اکثر افراد ان کےمنصوبے پر تتنقید کر رہے تھے اور اس بات پر زور دے رہے تھے کہ شاہ سلمان فلسطینی شہریوں کے حقوق پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں‘۔

رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی کانگریس ایک ایسے معاہدے کی حمایت کرے گی یا نہیں جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ شامل نہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز حماس نے فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے ویسٹ بینک میں تشکیل دی گئی نئی انتظامیہ میں الفتح کے علاوہ دیگر جماعتوں کو شامل نہ کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اس فیصلے سے فلسطینی مزید تقسیم ہوسکتے ہیں۔

ویسٹ بینک کے وزیراعظم محمد شتیہ کو حماس کا مخالف تصور کیا جاتا ہے اور انہیں اسرائیلی اور فلسطین کے درمیان مذاکرات اور دو ریاستی حل کا حامی قرار دیا جاتا ہے۔

اس سے قبل 25 مارچ کو ڈونلڈ ٹرمپ نے متنازع گولان ہائٹس کے علاقے پر اسرائیلی قبضے کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کے دستاویزات پر دستخط کر دیئے تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران دستاویزات پر دستخط کیے، اس اقدام نے امریکا کی پالیسی کو نصف صدی سے زائد عرصے پیچھے دھکیل دیا ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیل نے 1967 میں 6 روزہ جنگ کے دوران گولان ہائٹس، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا تھا۔

رواں برس مارچ میں سالانہ انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے لفظ ’اسرائیلی قبضہ‘ کے بجائے ’اسرائیلی کنٹرول‘ استعمال کیا، جو امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی کی جانب اشارہ ہے۔

بعد ازاں فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے امریکا کی جانب سے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور گولان ہائٹس کو زیر قبضہ علاقے قرار نہ دینے کے اقدام پر تنقید کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان

واضح رہے کہ سلامتی کونسل نے دسمبر 1981 میں قرارداد منظور کی تھی جس میں اسرائیل کے گولان ہائیٹس پر قبضے کو بغیر بین الاقوامی قانونی اثرات کے کالعدم قرار دیا تھا۔

دسمبر 2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔

جس کے بعد گزشتہ برس 14مئی کو اسرائیل کے قیام کی 70ویں سالگرہ پر امریکا نے یروشلم میں اپنا سفارتخانہ کھول دیا تھا اور اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ خصوصی طور پر اپنے شوہرجیرڈ کشنر کے ہمراہ اسرائیل پہنچی تھیں۔

واضح رہے کہ صہیونی ریاست کے مطالبے پر 1995 سے امریکا کا قانون تھا کہ واشنگٹن کے سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) منتقل کردیا جائے تاہم قانون کی منظوری کے بعد ہر 6 مہینے میں اس قانون پر عمل درآمد روک دی جاتی تھی۔