بھارت اپنے ’شکن‘ میزائل کو کتنا پر امن رکھے گا؟
گزشتہ ماہ مارچ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان نے مصنوعی سٹیلائٹس کو خلا میں تباہ کرنے والے ایک نئے بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ بلیسٹک میزائل ہندوستان کے سرکاری دفاعی ادارے ’’ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن’’ کے مشن شکتی کے تحت تیار کیا گیا۔ اس کا تجربہ کرتے ہوئے اسے ریاست اڑیسہ کے "انٹیگریٹڈ ٹیسٹ رینج" سے فائر کیا گیا اور اس کا نشانہ نچلے زمینی مدار میں زمین سے 300 کلومیٹر کی بلندی پر ایک مصنوعی سٹیلائٹ تھا۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس بیلسٹک میزائل نے صرف 3 منٹ کے قلیل وقت میں کامیابی کے ساتھ اپنے ہدف کو نشانہ بنایا، مگر تباہ ہونے والے مصنوعی سیارے کے متعلق کوئی معلومات جاری نہیں کی گئی اور نہ ہی تجربے کی باقاعدہ ویڈیو یا تصاویر جاری کی گئیں۔
بھارتی میڈیا نے اس پر خوشی بھی کی کہ بھارت اب امریکا، روس اور چین کے بعد چوتھی "خلائی طاقت" بن گیا ہے جس کے پاس مصنوعی سٹیلائٹ یا سیارچوں کو خلا میں تباہ کرنے والے بلیسٹک میزائل ہیں۔ اس سے پہلے 2007 میں چین نے سٹیلائٹ شکن میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تھا تو بین الاقوامی حلقوں کی جانب سے کافی مذمت کی گئی تھی مگر ابھی تک بھارت کے لیے ایسی مذمت یا تنقید سامنے نہیں آئی، البتہ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے سربراہ نے بھارت کے اس تجربے پر شبہات کا اظہار کیا تھا۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھارت کے اس تجربے کی مذمت کیوں نہیں کی گئیِ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا کی ضرورت ہوگی کہ یہ مصنوعی سیارچے یا سٹیلائٹ کیا ہیں؟
پاکستان میں عام افراد جو دن بھر سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں وہ اس حوا لے سے زیادہ معلومات نہیں رکھتے، سٹیلائٹس دو طرح کے ہوتے ہیں ان میں پہلی قسم کو نیچرل یا قدرتی سٹیلائٹ کہا جاتا ہے جس کی ایک مثال چاند ہے جسے زمین کا نیچرل سٹیلائٹ کہا جاتا ہے جو اس کے گرد محو گردش ہے۔ دوسری قسم مصنوعی یا آرٹیفیشل سٹیلائٹس کی ہے جنھیں مخصوص مقاصد کے لیے زمین کے نچلے درجے کے مدار میں بھیجا جاتا ہے۔
خلائی تاریخ کا سب سے پہلا مصنوعی سٹیلائٹ سوویت یونین نے 4 اکتوبر 1957 کو بھیجا تھا جس کا نام " سپوتنک ون" تھا، تب سے اب تک پاکستان سمیت دنیا بھر کے 40 ممالک تقریبا 8،100 سٹیلائٹ زمین کے مدار میں بھیج چکے ہیں جن میں سے 500 نچلے درجے کے مدار یعنی ( لو ارتھ آربٹ 300 کلومیٹر کی بلندی پر ہیں) 50 پولر آربٹ یعنی (20،000 کلومیٹر کی بلندی پر) اور باقی اس سے اوپر کے مدار میں بھیجے گئے تھے جسے "جیو سٹیشنری آربٹ" یعنی(36،000 کلومیٹر کی بلندی) کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نریندر مودی کا اینٹی سیٹلائٹ میزائل کے تجربے کا دعویٰ، سوشل میڈیا پر تنقید
اس کے علاوہ سائنسدانوں نے اپنی کوششوں سے ہمارے نظام شمسی کے دیگر سیاروں مریخ، زہرہ، عطارد اور مشتری کے مداروں میں بھی کچھ سٹیلائٹ بھیجے ہیں جو ان کے مصنوعی سٹیلائٹ بن کر ان کے مدار میں محو گردش ہیں۔
زمین کے مدار میں بھیجے جانے والے مصنوعی سٹیلائٹس میں سے اب تک 1900 آپریشنل ہیں جب کہ باقی تکنیکی خرابیوں یا اپنی مدت پوری کر لینے کے بعد ناکارہ ہوچکے ہیں اور اسپیس جنک یا خلائی کچرے کی صورت میں زمین کے گرد خلائی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں، مگر انہی سٹیلائٹس کی بدولت یہ دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوئی ہے اور یہ دنیا بھر میں ہر طرح کی معلومات کی ترسیل کا بنیادی ذریعہ ہیں مگر عموما انھیں زراعت، رسد و رسائل، مواصلات، دفاع، قدرتی آفات سے متعلق معلومات، انٹرٹینمنٹ، موسمیاتی تبدیلیوں، گلوبل وارمنگ اورخفیہ نگرانی جیسے مقاصد کے حصول کے لیے خلا میں بھیجا جاتا ہے۔
لہذا انھیں سویلین اور ملٹری 2 طرح کی کیٹیگریز میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور ان کے مدار کا انحصار بھی ان کےخلا میں بھیجے جانے کے بنیادی مقصد پر ہوتا ہے۔