نقطہ نظر

پاکستان عرف پلاسٹکستان

دنیا میں اس کے اتنے سارے قابلِ عمل متبادل طریقے موجود ہیں کہ یہ خطرے سے زیادہ بلاشبہ مفید مواقع پیدا ہوسکتے ہیں
لکھاری صحافی ہیں۔

روانڈا کا نام سن کر آپ کے ذہن میں کون سا خیال آتا ہے؟ اگر آپ تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کے ذہن میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کا خیال آسکتا ہے، جس میں ہُوتُو انتہاپسندوں نے تتسی نسل کے 5 لاکھ سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ہُوتُو انتہاپسندوں کی تنظیم انٹرہاموی نے 70 فیصد تتسی آبادی کا صفایا کردیا تھا، جبکہ اس مقصد کے لیے ہتھیار کے طور پر لمبے خنجروں کو استعمال کیا گیا۔

تاہم روانڈا سے منسوب جو بات آپ کے علم میں شاید نہ ہو وہ یہ ہے کہ روانڈا دنیا کا پہلا پلاسٹک سے پاک ملک بن چکا ہے۔

2008ء میں اس چھوٹے سے مغربی افریقی ملک نے تمام تر اقسام کے نان بائیو ڈی گریڈ ایبل (تلف نہ ہونے والے) پلاسٹک کی تھیلیوں پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی جبکہ اس قسم کے کسی بھی پلاسٹک کو اپنے پاس رکھنے، انہیں بنانے اور درآمد کرنے پر 6 ماہ قید کی سزا دینے اور جرمانے عائد کا فیصلہ کیا گیا۔

باہر سے آنے والوں کی پوری طرح سے چیکنگ کی جاتی اور ہر قسم کے پلاسٹک کے بیگ کو ضبط کرلیا جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ شاندار رہا، اور 2008ء میں اقوامِ متحدہ کے انسانی آبادی کے پروگرام (یو این ہبیٹیٹ) نے اس ملک کے دارالحکومت کگلی کو افریقہ کا سب سے صاف ستھرا شہر قرار دیا۔

ایک دن کراچی میں گاڑی چلاتے وقت اپنے آس پاس جہنم کے پرندوں کی طرح ہوا کے ساتھ اڑتی پلاسٹک کی تھیلیوں کو دیکھا تو مندرجہ بالا باتوں کی سوچ میں ڈوب گیا۔ یہ تھیلیاں کچرے کے ڈھیر کے ساتھ درختوں کو بھی حسن بخشتی ہیں، درختوں کی شاخوں پر لٹکتی یہ پلاسٹک کی تھیلیاں بدنظمی کے پرچموں کی طرح نظر آتی ہیں۔ آگے بڑھا تو ایک بڑے ہی خوبصورت پینافلیکس پر نظر پڑی جس میں لوگوں سے پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال نہ کرنے کی درخواست کی جارہی تھی۔ پھر میرے یہ سوچنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ آخر کتنی بار پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کرنے کے فخریہ اعلانات کیے جاچکے ہیں۔

ایسی ہی ایک پابندی گزشتہ برس نومبر میں سندھ میں لگائی گئی تھی اور فیصلہ یہ ہوا کہ سب سے پہلے یہ پابندی سکھر میں عائد کی جائے گی، جس کے بعد بتدریج پورے صوبے میں اس پابندی کو نافذ کیا جائے گا۔

لہٰذا سکھر میں جا بجا بینرز آویزاں کردیے گئے اور دکانداروں کو وارننگ بھی دے دی گئی، مگر ہر بار جیسا ہوتا ہے، اس بار بھی ویسا ہی ہوا، اور پابندی پر ذرا برابر بھی عمل نہ ہوا۔ یہ بھی بات قابلِ غور ہے کہ سندھ ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 2014ء اور اس کی شق (3) 14 کے مطابق ’کسی بھی شخص کو پلاسٹک کی ایسی مخصوص مصنوعات کی درآمدگی، تیاری، ذخیرہ اندوزی، تجارت، سپلائی یا فروخت کرنے کی اجازت نہیں جو نان ڈی گریڈ ایبل ہوں۔‘

حال ہی میں ہنزہ نے بھی پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کی ہے، امید ہے کہ وہاں کے باسی اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔

میں یہاں آپ کو کچھ اعداد و شمار بھی بتانا چاہوں گا۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران دنیا نے گزشتہ صدی کے مقابلے میں زیادہ پلاسٹک پیدا کیا۔ ہر منٹ 10 لاکھ پلاسٹک کی تھیلیاں بنائی جاتی ہیں۔ ان میں سے نصف تھیلیاں محض ایک بار استعمال کرنے کے بعد پھینک دی جاتی ہیں۔ ہر سال اتنی بڑی تعداد میں پلاسٹک پھینکا جاتا جو دنیا کو 4 بار لپیٹنے کے لیے کافی ہے۔

ہم نے تو اپنے سمندروں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ فلپائن میں ایک ڈراؤنا منظر اس وقت دیکھنے کو ملا جب ساحل پر بہہ کر آنے والی وہیل مچھلی کے پیٹ سے 40 کلو پلاسٹک پایا گیا۔ جبکہ حال ہی ایک دوسری مری ہوئی حاملہ وہیل بھی پائی گئی جس نے 22 کلو پلاسٹک نگل لیا تھا۔

میں نے اس تحریر کی ابتدا روانڈا کی مثال (ویسے کینیا بھی اس حوالے سے کافی نمایاں کامیابی حاصل کرچکا ہے) سے اس لیے کی تھی کیونکہ اکثر لوگوں کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ افریقی ممالک کا شمار پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے اور ان میں کچھ ایسا خاص نہیں جسے ماڈل کے طور پر اپنانے کی خواہش کی جائے۔ لہٰذا جب انکاری خواتین و حضرات یہ کہتے ہیں کہ تیسری دنیا کے ملک میں اس قسم کی پابندی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا تو یہ (اور دیگر) مثالیں انہیں غلط ثابت کرسکتی ہیں۔

یقیناً متبادل ذرائع ڈھونڈے بغیر محض پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کرنا اور اس پر عمل کروانا کافی نہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں دکاندار چھوٹی سی چھوٹی چیز بھی ’شاپر‘ میں دیتے ہوں (اور اگر آپ تھیلی لینے سے انکار کردیں تو آپ کو ایسے دیکھتے ہوں جیسے آپ کا دماغ خراب ہے) وہاں متبادل کا ہونا لازمی ہے۔ تو جناب دنیا میں اس کے اتنے سارے قابلِ عمل متبادل طریقے موجود ہیں کہ یہ خطرے سے زیادہ بلاشبہ مفید مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔

مگر موجودہ فضول پلاسٹک کا کیا جائے؟ اس مسئلے کے بھی کئی حل تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ نائجیریا کے شہر یولا میں بڑی تعداد میں خواتین گھروں میں بیٹھ کر پلاسٹک کی تھیلیوں کی ری سائیکل کرکے فیشن کا سامان بناتی ہیں اور چند ملکوں میں ان سے فن پارے بھی بنائے جاتے ہیں۔

اس ماڈل کو ہمارے ہاں اپنانے میں زیادہ مشکل نہیں کیونکہ اس سے ہمیں اقتصادی پیداوار میں اضافہ کرکے مالی فائدہ حاصل ہوگا۔ ہاں اس کے علاوہ فضول پلاسٹک کو (پگھلا کر) سڑکوں کی تعمیر میں استعمال کرنے کا ہندوستانی جدید طریقہ بھی تو آپ کے سامنے موجود ہے۔

اب بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی طریقہ ہر طرح سے بہتر نہیں ہے، مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی جادوئی حل تو کہیں دستیاب نہیں۔

اس کا بہتر حل یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں اور انٹرپرینیور طبقے میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے متعدد اقدامات کیے جائیں، بشرطیکہ اس مقصد کے لیے عزم بھی موجود ہو، کیونکہ ہم یہیں آکر مار کھا جاتے ہیں۔ انفرادی حیثیت میں کیا جانے والا کام چاہے کتنا ہی معنی خیز یا جدید ہو، مگر ریاست کے کردار کی برابری کبھی نہیں کرسکتا، لیکن ہم نے اب تک چند اجلاسوں، اعلانات اور زبانی کلامی خدمت کے سوائے اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کے لیے کسی قسم کا عزم نہیں دیکھا۔

جبکہ یہ کہنا بیکار ہے کہ یہ کام اسی صورت میں کارگر ثابت ہوگا جب سماجی رویے بدلیں گے، کیونکہ معاشرے میں کوئی بھی کام منظم انداز میں کروانے کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر اہم مسائل بھی اس ملک کو لاحق ہیں (اور امید ہے کہ ان سب کا حل بھی ڈھونڈا جائے گا) لیکن اس بات کا بہانہ بنا کر ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں چانا چاہیے خاص طور پر جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ جو پلاسٹک کی اوسط معیار کی تھیلی ہم نے آج خریدی اور پھینکی ہے وہ ہماری اولادوں کی اولادوں اور ان کی اولادوں کی اولادوں کی ہڈیاں گل سڑ جانے کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک یہاں وہاں بکھری ملیں گی۔

اس دنیا میں ہم اپنے پیچھے کئی چیزوں کی میراث چھوڑ جائیں گے بس خیال رہے کہ پلاسٹک کی تھیلی میں ان سے سب سے زیادہ پائیدار میراث ثابت نہ ہو۔


یہ مضمون 15 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرار کھوڑو

ضرار کھوڑو ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ڈان نیوز ٹی وی پر پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے میزبان بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ZarrarKhuhro@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔