پاکستان

حکومت گرانا مسئلے کا حل ہوتا تو کوئی حکومت نہ چل سکتی، وزیر خارجہ

تحریک انصاف کی 8ماہ کی حکومت کو موجودہ صورتحال کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، شاہ محمود قریشی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت گرانا کبھی مسئلے کا حل ہوتا تو کوئی بھی حکومت نہیں چل سکتی، اپوزیشن اپنی باری کے لیے اگلے 5سال انتظار کرے۔

ملتان میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران ملک کے معاشی بحران کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تو تجارتی خسارہ انتہائی حدوں کو چھو رہا تھا، مالیاتی خسارہ خطرناک حد تک بڑھ چکا تھا ، ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری بے تحاشہ حد تک گر چکی تھی، قرض میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا۔

مزید پڑھیں: بلاول بھٹو کی حکومت کو دمادم مست قلندر کی وارننگ

انہوں نے کہا کہ ’عمران خان صاحب اس بات کا ذکر کر چکے ہیں 1948 سے لے کر 2008 تک سابقہ حکومتوں نے 6ہزار ٹریلین کا قرض اکٹھا کیا اور ان پھر اگلے 10سال میں ملک مجموعی طور پر 30 ہزار ٹریلین کا مقروض ہو گیا، 24ہزار ٹریلین کے اضافے کا ذمے دار کون ہے؟ لہٰذا تحریک انصاف کی 8ماہ کی حکومت کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ڈالر کو مصنوعی طور پر فریز کیا ہوا تھا اور روپے کو استحکام دینے کے لیے وہ ڈالر مارکیٹ میں پھینکتے تھے، جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو فاریکس ریزرو صرف 2ہفتے کے رہ چکے تھے اور اس بگڑی ہوئی صورتحال سے تحریک انصاف کو دوچار ہونا پڑا اور ہم انہیں درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسد عمر چٹکی بجاکر مسائل حل نہیں کرسکتے

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیر خزانہ اسد عمر ہوں یا کوئی اور ہو وہ راتوں رات چٹکی بجا کر مسائل حل نہیں کر سکتا، وہ بتدریج اقدامات اٹھا رہے ہیں جن سے معیشت میں ٹھہراؤ آنا شروع ہو جائے گا اور آنا شروع بھی ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انشااللہ ایک مدت کے بعد ہماری برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا جبکہ سرمایہ کاری کا رجحان بھی آ رہا ہے جس سے بیروزگاری کم ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا ’معاشی بحران‘ پر حکومت مخالف مظاہروں میں شامل ہونے کا اعلان

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت گرانا مسئلے کا حل ہوتا تو کوئی حکومت چل نہیں سکتی تھی، 2018 کے انتخابات میں لوگوں نے اپنی پسند کا اظہار کرتے ہوئے تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دیا۔

وزیر خارجہ نے اپوزیشن کو پیغام دیا کہ آپ 5سال انتظار کیجیے جیسے پچھلی اپوزیشن کو 5سال انتظار کرنا پڑا تھا، 5 سال بعد ہم اپنی کارکردگی عوام کے سامنے رکھیں گے اور پھر عوام فیصلہ کریں گے، عوام کا ہر فیصلہ ہم کھلے دل سے قبول کریں گے۔

نیب سے توقع ہے کہ وہ کسی دباؤ میں نہیں آئے گا

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو(نیب) ایک خود مختار ادارہ ہے، وہ حکومت کے تابع نہیں ہے، ہم اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں نہ دباؤ میں لا سکتے ہیں اور وہ ہماری مرضی کے فیصلے بھی نہیں کرے گا۔

مزید پڑھیں: ’بھارت نیا منصوبہ بنارہا ہے، 16سے20اپریل کے درمیان جارحیت کا امکان ہے‘

شاہ محمود نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ نیب کرپشن کے تدارک کے لیے ہماری مدد کرے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ کرپٹ عناصر کا تعلق چاہے کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہو، ان کی بیخ کنی ہونی چاہیےاور جو طبقہ پاکستان کے خزانے کو نقصان پہنچا چکا ہے اس کا احتساب ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نیب سے قوم توقع کرتی ہے کہ وہ بغیر رعایت اور دباؤ کے کرپشن فری پاکستان کی منزل کی جانب بڑھتا چلا جائے گا۔

ہم کوئٹہ دہشتگردی پر بھارت جیسا رویہ نہیں اپنائیں گے

ایک اور سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر ہندوستان غیرذمے دارانہ بیان بازی کرے گا تو کوئٹہ دھماکے کے بعد پاکستان کو ایسا نہیں کرنا، ہمیں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرنی بلکہ ہمیں تحقیق کرنی ہے اور اس نتیجے پر پہنچنا ہے کہ کہیں کوئٹہ میں رونما ہونے والے اس المناک واقعے میں کوئی دہشت گردی، فرقہ واریت یا بیرونی ہاتھ تو ملوث نہیں۔

’ہم تحقیق کے بعد بات کریں گے، بھارت کا رویہ نہیں اپنائیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں انتخابات ہو رہے ہیں اور یہ مرحلہ 19مئی کو مکمل ہو گا اور اس وقت ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

وزیر خارجہ نے بتایا کہ وزیر اعظم پہلے ایران جائیں گے جو ہمارا پڑوسی ملک ہے، ایران کے ساتھ اچھے تعلقات اور سرحد پر امن برقرار رکھنا پاکستان کی ضرورت اور اس کے مفاد میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’بھارت کی جانب سے جارحیت کا خطرہ اب بھی برقرار ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم 25تاریخ کو چین روانہ ہوں گے جہاں صدر شی جن پنگ نے انہیں دورے کی دعوت دی ہے اور وزیر اعظم بیلٹ اینڈ روڈ فورم کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنے کے بعد چین کی قیادت سے اہم ملاقاتیں بھی کریں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہاں امن اور خوشحالی آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم افغان امن عمل میں اپنا موثر کردار ادا کر رہے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ یہ خطے میں امن و استحکام کے اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔