اب کیلوریز کو کیا گننا؟
یہ کوئی تقریباً 20 سال پرانی بات ہے جب میں اپنی ہر چھٹی باقاعدگی کے ساتھ کراچی کے فرینچ بیچ پر گزارا کرتا تھا۔ میں نے ایک دوست سے ایک ہٹ کرائے پر لیا ہوا تھا، جہاں سے بڑے ہی خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملتے تھے۔ ہر ہفتے کی صبح میں ساحل پر لے جانے کے لیے ضروری سامان باندھ لیتا۔ پھر اگلے دن اکثر دوست وہاں عشائیے یا ظہرانے کے لیے وہاں آیا کرتے۔
لکڑی کی سیخوں میں پروئی ہوئی سرمئی مچھلی پر زیتون کا تیل اور لہسن لگایا جاتا ہے، جسے برف سے بھرے کول باکس میں ڈالا جاتا ہے اور اس کے ساتھ آلو کا سلاد میں رکھا جاتا ہے۔ راستے سے میں ڈبل روٹی، دیسی انڈے، بار بی کیو کے لیے کوئلے اور چند پانی کی بوتلیں خرید لیتا تھا۔
مزید پڑھیے: پاکستان عرف پلاسٹکستان
اس ہٹ میں ایک مناسب سائز کا کچن اور ایک بیڈ روم تھا، لہٰذا یہ رہنے کے لیے کافی آرام دہ جگہ تھی۔ ایک بار ہٹ پر سارا سامان اپنی اپنی جگہ پر رکھنے اور تھوڑا آرام کرلینے کے بعد میں سمندر کا رخ کرتا اور جب دیکھتا کہ لہریں پُرسکون ہوچکی ہیں تو لہروں کے اندر خود کو سمادیتا تھا، اس کے بعد واپس آکر مشروب ساتھ لے کر بیٹھتا اور لہروں کو تکتا رہتا۔ دوپہر کا سادہ سا کھانا کھانے کے بعد اونگھ لینے کی باری ہوتی کیونکہ لہروں کی موجیں اپنے اندر خواب آور اثر رکھتیں۔
جب اندھیرا ہوتا تو قریبی گاؤں کی ایک ٹیم آتی اور بار بی کیو میں مدد کرتی۔ جب تک کھانا تیار ہورہا ہوتا تو اس دوران ہم اس ساحل پر باقاعدگی کے ساتھ آنے والوں کی غیبت کیا کرتے۔ فرینچ بیچ کو جو بات منفرد بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے مالک گاؤں والے ہیں جو یہاں آنے والوں کا بھرپور طریقے سے تحفظ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آنے والی لڑکیاں اور خواتین اوباش افراد کے ہاتھوں پریشان ہوئے بغیر نہایا کرتیں۔ بغیر مبالغہ آرائی کے بات کی جائے تو میں نے یہاں سیکڑوں چھٹی کے دن گزارے، وہ بھی بغیر کسی خطرے کے۔
اتوار کو برنچ میں دیسی آملیٹ، فرینچ ڈبل روٹی کے ساتھ کافی شامل ہوتی۔ دوپہر کے بعد جب لوگوں کا ہجوم آنے کا وقت ہوتا تو میں تیز آواز میں موسیقی اور بچوں کے چیخنے چلانے کے شور سے بچنے کے لیے اپنا سامان باندھنا شروع کردیتا۔ لیکن اگر کبھی دوپہر کے کھانے کے لیے دوستوں کے آنے کا پروگرام ہوتا تو میں اپنی یہ خواہش ان کے کانوں تک پہنچا دیتا کہ مجھے کیکڑے چاہئیں، اور اکثر و بیشتر میری یہ خواہش پوری بھی ہوجاتی۔
بس پھر کیکڑوں کو ابالا جاتا اور اس کے بعد انہیں کڑاہی میں چلی ساس کے ساتھ ہلکے تیل میں فرائی کیا جاتا تھا۔ سمندر کے نظاروں کے ساتھ کیکڑے کا گوشت کھانے کا تجربہ اب بھی کئی دوست یاد کرتے ہیں۔
یہ تمام یادیں اس وقت تازہ ہوگئیں جب میں چند گھنٹوں کے لیے فرینچ بیچ لوٹا تھا۔ وہاں موجود میرے بیٹے کے ہٹ کو اس کے زین نامی دوست نے کچھ وقت کے لیے لیا ہوا تھا اور یہ اس کی سخاوت ہے کہ اس نے مجھ سمیت میرے چند دوستوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیا۔ میں نے اپنے پرانے ماہی گیر دوست فتح کو بلوایا اور وہ اپنے ساتھ چند کیکڑے اور تلی ہوئی مچھلی لے کر آیا۔ وہ اس مچھلی کو ’سیلمن‘ پکار رہا تھا جو ہمارے پانیوں میں ہوتی ہی نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ گھسر مچھلی کی ہی کوئی قسم ہے۔