دنیا

طالبان پر اعتماد کا فقدان ہے مگر مذاکرات ہماری ضرورت ہیں، پومپیو

افغانستان کے اہم وسائل پر طالبان کا کنٹرول ہے،افغان حکومت بھی دوسروں کی طرح مذاکرات کا حصہ ہے، امریکی سیکریٹری اسٹیٹ

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے افغانستان میں امن عمل کے لیے مذاکرات کے دوران طالبان پر اعتماد کی کمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس ‘اہم وسائل’ ہیں اور فوجی انخلا کے لیے مذاکرات ہماری ضرورت ہیں۔

کانگریس کے اجلاس کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی کی مخالف کرنے والے اراکین سمیت اکثریت نے ٹرمپ ک انتظامیہ کی جانب سے افغانستان سے فوجی انخلا کے فیصلے کی حمایت کی تاہم مزید بہتر اقدامات کا مطالبہ کیا۔

کینٹکی سے ری پبلکن سینیٹر ریند پال نے مائیک پومپیو کو مخاطب کرکے افغانستان میں 18 سالہ طویل جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘میرے خیال میں آپ اعتراف کر چکے ہیں کہ افغانستان کا فوجی حل نہیں ہے لیکن وہاں کی صورت حال بدترین ہے اس کے باوجود وہاں پر سالانہ 50 بلین ڈالر ضائع ہونے پراعتراضات کیے جاتے ہیں’۔

نیو ہمپشائر سے ڈیموکریٹ سینیٹر جیئن شاہین کا نے طالبان سے براہ راست مذاکرت کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے تصور پر سوال کیا اور کہا کہ مذاکرات کے باوجود ان کی جانب سے امریکی اور افغانستان کی فورسز پر حملے جاری ہیں جبکہ کابل سے براہ راست مذاکرات سے بھی انکاری ہیں۔

خیال رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے 6 دور ہوچکے ہیں اور رواں ماہ کے اواخر میں بھی ایک مرتبہ پھر ملاقات متوقع ہے جہاں افغان حکومت کے علاوہ دیگر رہنماوں کا وفد بھی شریک ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:امریکا-طالبان مذاکرات میں 'بڑی کامیابی' کا دعویٰ

مائیک پومپیو نے کہا کہ ‘طالبان سے مذاکرات اس لیے کررہے ہیں کیونکہ اہم وسائل پر ان کا قابو ہے اور مفاہمت ہماری ضرورت ہے’۔

طالبان سے مذاکرات کے عمل سے افغان حکومت کو باہر رکھنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘ہماری روزانہ گفتگو ہوتی ہے’ جس پر سینیٹر شاہین نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ‘لیکن وہ مذاکرات کی میز پر نہیں ہیں’۔

مائیکل پومپیو نے کہا کہ ‘مذاکرات کی توسیع پر کام چل رہا ہے اور وہ مذاکرات کا اسی طرح حصہ ہیں جیسے دیگر ہیں، ہم قومی اتفاق رائے کی حکومت سے مذاکراتے کر رہے ہیں اور طالبان سے بھی بات کر رہے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم ان دونوں کو ایک جگہ بٹھانے کے لیے کام کررہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس کے قریب ہیں جس کا نتیجہ ایک معاہدے کی صورت ہوگا جو افغان عوام کی کامیابی ہوگی’۔

یہ بھی پڑھیں:افغان طالبان کا امریکی حکومت کے بیان سے اختلاف

سینیٹر شاہین نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم طالبان پر کیسے اعتماد کریں کہ وہ گزشتہ 17 برس کے بجائے آج ہمارے ساتھ دیانت دار ہوں گے’۔

پومپیو نے طالبان کے ساتھ اعتماد کے فقدان کا اقرار کرتے ہوئے وضاحت کی اور کہا کہ ‘اعتبار کے ساتھ اعتماد سے ہی عملی اقدامات ہوں گے’

ان کا کہنا تھا کہ ‘اعتماد کا فقدان’ ہی افغان امن عمل کا بنیادی مسئلہ تھا کیونکہ صرف امریکا اور طالبان کے درمیان اعتماد کی کمی نہیں تھی بلکہ دیگر کے ساتھ بھی اعتماد میں کمی تھی۔

سیکریٹری اسٹیٹ نے کہا کہ 'ہم اس بات کا ادراک ہے کہ طالبان کے ساتھ اعتماد کی کمی کی سطح نہ صرف گہری ہے بلکہ افغانستان کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بھی یہی صورت حال ہے، یہ ایک ایسی قوم ہے جس کی تاریخ سچ بولنے اور کرپشن کے حوالے سے مایوس کن ہے، ہم نے اپنی آنکھیں کھول رکھی ہیں'۔

مزید پڑھیں:امریکا سے مذاکرات کیلئے طالبان کی 14رکنی ٹیم کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ امریکی نظریں معاہدے پر ہیں جس کے نتیجے میں مفاہمت ہو اور کشیدگی میں بھی کمی آئے جس کے لیے مذاکرات ڈھانچہ ہے لیکن عملی طور پر اس مسئلے کے خاتمے کے لیے اعتماد کی ضرورت ہے۔

سینیٹ شاہین کی جانب سے طالبان اور امریکا کے معاہدے میں افغان خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مطالبے پرانہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'یاد رکھیے حتمی فیصلہ افغان خود کریں گے'۔

مائیک پومپیو نے کہا کہ 'مجھے امید ہے کہ افغان خواتین کی آواز کو بھی سناجائے گا اور افغان خواتین اپنی قیادت سے مطالبہ کریں گی، ہم چاہتے ہیں کہ ہر خاتون کی آواز کو سناجائے اور امید ہے کہ وہ ایسا کریں گے'

طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے دو اہم نکات پر توجہ مرکوز کر رکھی تھی جس میں امریکی وسائل کے نقصان اور امریکی فوجیوں کو درپیش خطرات کو کم کرنا اور 'حقیقی ریاست سے مستقبل میں دہشت گردانہ حملوں کو روکنا' ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغان امن عمل کے باوجود طالبان کا موسم بہار میں جارحانہ کارروائیوں کا اعلان

خیال رہے کہ افغان طالبان کی جانب سے امریکی فوجیوں پر حملے بھی جاری ہیں جہاں گزشتہ ہفتے ایک حملے میں 3 امریکی فوجی مارے گئے تھے جبکہ دوسری جانب افغان فورسز پر بھی پے در پے حملے ہورہے ہیں۔

افغانستان میں دونوں فریقین کےدرمیان لڑائی کے باجود قطر میں مذاکرات بھی جاری ہیں جہاں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے طالبان سے طویل مذاکرات کے بعد اہم پیش رفت کا دعویٰ کیا تھا۔

زلمے خلیل زاد ایک ہفتہ قبل ہی افغان امن عمل کے حوالے سے پاکستان کا بھی دورہ کرچکے ہیں جس کے بعد وہ افغانستان اور دیگر پڑوسی ممالک گئے تھے۔