یہ سوال بلیک ہول کے بارے میں سب سے زیادہ پوچھے جانے والا سوال ہے. اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ آج تک سائنسدانوں نے نہ کبھی بلیک ہول کو دیکھا ہے اور نہ ہی آنے والے وقتوں میں دیکھ سکیں گے.
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب بلیک ہول مادے کو نگلتا ہے تو ایونٹ ہورائزن سے پہلے، شدید کشش کی وجہ سے مادہ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اور انرجی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں ایونٹ ہورائزن کے بہت قریب ایکس ریز اور ریڈیائی روشنی پیدا ہوتی ہیں جسے زمین پر موجود دوربینوں کی مدد سے تصویر میں قید کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہم بلیک ہولز کا مشاہدہ کرتے ہیں.
اس کانفرنس سے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ اس دوربین کی مدد سے دو کہکشاؤں، جن میں ایک ہماری اپنی کہکشاں اور دوسری ایم 87 کہکشاں شامل ہے، کی تصویریں شائع کی جائیں گیں لیکن 10 اپریل کو صرف ایم 87 کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول کی تصویر ہی دکھائی گئی.
اس کی وجہ یہ ہے کہ رواں سال جنوری میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ ملکی وے کے درمیان موجود سپر میسو بلیک ہول سے خارج ہونے والے مادے کا رخ (جس کو جیٹس کہا جاتا ہے) زمین کی طرف ہے. اس وجہ سے دوربینوں کو بلیک ہول کی بجائے تیز روشنی دکھائی دی. اسی لئے آج ہماری کہکشاں کے بلیک ہول کی تصویر نہیں پیش کی گئی.
10 اپریل 2019 کا دن ایک نئی انسانی تاریخ رقم کرگیا کیونکہ آج سائنسدانوں نے جو چیز دیکھی وہ آج سے پہلی کسی سے نہیں دیکھی. بلیک ہول کی اس تصویر سے پہلے آپ نے انٹرنیٹ پر یا سائنس فکشن فلموں میں جتنی بھی تصاویر دیکھیں وہ صرف کمپیوٹر سافٹ ویئر کی مدد سے بنائی گئی اسمولیشنز ہیں، لیکن یہ تصویر کسی سافٹ ویئر کی مدد سے نہیں بنائی گئی بلکہ اس پروجیکٹ میں شامل دنیا بھر کے سائنسدانوں کی ان تھک محنت اور لگن کا نتیجہ ہے.
آج انسان کو پچھلی اقوام پر یہ امتیاز حاصل ہوگیا کہ وہ اس سائنسی دور میں اتنی ترقی کرگیا ہے کہ اس نے کائنات کی چھپی ہوئی چیزوں میں سے ایک پر سے پردہ اٹھا دیا ہے.
آخر میں یہ کہوں گا کہ بلیک ہول کی یہ تصویر ریاضی اور فزکس کے ان تمام حسابات کے عین مطابق ہے جو ایک صدی پہلے بیسویں صدی کے مشہور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن اور اکیسویں صدی کے نامور سائنسدان ڈاکٹر سٹیفن ہاکنگ نے کیے، اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ آج کی سائنس صحیح سمت میں جارہی ہے کیونکہ اگر اس کی سمت غلط ہوتی تو کائنات سائنس کی انکاری بن کر خود کو ثبوت کے طور پر پیش کردیتی۔