دنیا

برطانیہ: وکی لیکس کے بانی جولین اسانج سفارتخانے سے گرفتار

پولیس نے لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے سے گرفتار کیا، ایکواڈور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام

لندن: وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو 7 سال کی طویل سیاسی پناہ گزارنے کے بعد برطانیہ سے گرفتار کرلیا گیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جولین اسانج کو لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے سے گرفتار کیا گیا۔

ادھر میٹروپولیٹن پولیس سروس (ایم پی ایس) کے مطابق وکی لیکس کے بانی کو سینٹرل لندن پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے، ’جہاں وہ اس وقت تک رہیں گے جب تک انہیں جلد از جلد ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا‘۔

پولیس نے مزید کہا کہ ایکواڈور کی حکومت کی جانب سے سیاسی پناہ واپس لینے کے بعد سفارتکار نے پولیس کو سفارتخانے میں بلایا۔

مزید پڑھیں: وکی لیکس کے بانی کےخلاف ’ریپ کیس‘ کی تحقیقات ختم کرنے کا اعلان

واضح رہے کہ وکی لیکس کے بانی جنسی زیادتی کیس میں سوئڈن حوالگی سے بچنے کے لیے 7 سال سے لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے، تاہم ان کی سیاسی پناہ ختم کرنے کے اعلان پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

میٹروپولیٹن پولیس کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے میں ناکام ہونے پر جولین اسانج کو گرفتار کیا گیا۔

ادھر ایکواڈور کے صدر لینن مورینو کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں کے بعد جولین اسانج کی سیاسی پناہ واپس لے لی گئی۔

تاہم وکی لیکس کی جانب سے ایک ٹوئٹ کی گئی کہ ایکواڈور کی جانب سے ’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر جولین اسانج کی سیاسی پناہ کو ختم کیا گیا۔

دوسری جانب برطانوی سیکریٹری داخلہ ساجد جاوید نے ٹوئٹ کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ پولیس نے وکی لیکس کے بانی کو گرفتار کرلیا۔

اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ جولین اسانج پولیس کی حراست میں ہیں اور وہ برطانیہ میں انصاف کا سامنا کررہے ہیں‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’قانون سے کوئی بالاتر نہیں، میں تعاون پر ایکواڈور اور پیشہ وارانہ مہارت پر میٹ پولیس برطانیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘۔

47 سالہ جولین اسانج نے سفارتخانے کو چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وکی لیکس کی سرگرمیوں کے لیے سوالات پر انہیں امریکا منتقل کیا جاسکتا ہے۔

گرفتاری سے متعلق برطانوی وزیر خارجہ سر ایلن ڈنکن کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ’ہمارے دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات ہوئے‘۔

اس بارے میں ایکواڈور کے صدر لینن مورینو کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ کی جانب سے ایکواڈور کو ضمانت دی گئی کہ جولین اسانج کو اس ملک کے حوالے نہیں کیا جائے گا جہاں موت کی سزا ہو۔

لینن مورینو کا کہنا تھا کہ ’انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ہمارے بھرپور عزم کے تحت میں نے برطانیہ سے درخواست کی کہ اس بات کی ضمانت دی جائے کہ جولین اسانج کو ایسے ملک کے حوالے نہیں کیا جائے جہاں انہیں تشدد یا سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہو‘۔

یہ بھی پڑھیں: 'آسانج پھیپھڑوں کی تکلیف میں مبتلا'

انہوں نے بتایا کہ ’برطانوی حکومت نے اپنے قوانین کے مطابق تحریری طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے‘۔

واضح رہے کہ نومبر 2010 میں سوئڈن نے جولین اسانج کے بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، اس سے قبل ان سے جنسی ہراساں اور ریپ کے الزامات پر سوالات کیے گئے تھے، تاہم انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خفیہ امریکی دستاویزات کو شائع کرنے پر انہیں سوئڈن سے امریکا کے حوالے کردیا جائے گا۔

بعد ازاں دسمبر 2010 میں جولین اسانج نے برطانوی پولیس کے سامنے سرنڈر کیا تھا لیکن وہ 10 روز کی ضمانت پر رہا ہوگئے تھے، تاہم حوالگی کی کارروائی کو چیلنج کرنے میں ناکامی کے بعد انہوں نے ضمانت کی خلاف ورزی کی تھی اور فرار ہوگئے تھے۔

جس کے بعد اگست 2012 میں ایکواڈور کی جانب سے انہیں سیاسی پناہ دی گئی تھی اور وہ اس کے بعد سے وہ لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے۔