Parenting

بچوں میں بستر گیلا کرنے کی عادت سے پریشان ہیں؟

اپنے بچوں کو سمجھائیے کہ وہ اکیلے نہیں جو بستر گیلا کرنے کی پریشانی کا سامنا کررہے ہیں بلکہ ایسے بہت سے دیگر بچے بھی ہیں

لاکھوں بچے نہ چاہتے ہوئے بھی رات کو نیند میں بستر گیلا کردیتے ہیں، جو بچوں کے والدین کے لیے نہایت تناؤ اور پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ چند بچوں کے لیے بستر گیلا کرنا باعث شرمندگی اور مایوسی کا سبب بن سکتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ رشتے داروں کے گھر ٹھہرنے کے خیال سے خائف ہوتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف چند ایسے بھی بچے ہیں جن کو بستر گیلا کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر ان کے والدین کو یا تو روزانہ صفائی کے ایک پورے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے یا پھر ڈائپرز کا خرچہ اٹھانا پڑتا ہے۔

یہ پریشانی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب والدین اس مشکل سے نکلنے کے لیے مشورے مانگتے ہیں۔

سب سے پہلے یہ واضح کرتے چلیں کہ ایلیمنٹری اسکول جانے والے بچوں میں بستر گیلا کرنا عام بات ہے۔ لیکن اگر بچوں کو بہت ہی کم عمری میں رات کو بستر خشک رکھنے کے حوالے سے تربیت دینے کی کوشش کی جائے تو ان میں مایوسی، شرمساری اور اینگزائٹی پیدا ہوجاتی ہے۔

مزید پڑھیے: موجودہ دور میں بچوں کے ساتھ والدین کو بھی تربیت درکار ہے

ایک اندازے کے مطابق، کنڈرگارٹن کلاس کے تقریباً 20 فیصد بچے اس عمر میں بھی روزانہ بستر گیلا کردیتے ہیں، ایلیمنٹری اسکول کے 7 فیصد بچے کم از کم ہفتے میں ایک بار بستر گیلا کرتے ہیں، جبکہ 100 میں سے ایک ٹین ایجر بھی بستر گیلا کرتا ہے۔

اپنے بچوں کو سمجھائیے کہ وہ اکیلے نہیں جو بستر گیلا کرنے کی پریشانی کا سامنا کررہے ہیں، بلکہ ایسے بہت سے دیگر بچے بھی ہیں، اس طرح بچے میں پریشانی اور خوف میں کمی واقع ہوگی۔ زیادہ تر بچوں میں وقت کے ساتھ بستر گیلا کرنے کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔

اس عادت کو چھڑوانے کے لیے عام طور پر یہ مشورے دیے جاتے ہیں کہ بچوں کو رات سونے سے پہلے بچے کو مائع غذائیں (پانی وغیرہ) دی جائیں، یا پھر بچوں کو سونے سے قبل زبردستی واش روم لے جانے کی عادت ڈالی جائے، مگر ان ترکیبوں پر عمل کرنے کے باوجود مسئلہ حل نہیں ہوتا، کیونکہ اصل جڑ پر کام نہیں کیا جاتا۔

دراصل دماغ اور مثانے کے درمیان ناپختہ تعلق کے باعث بچہ بستر گیلا کردیتا ہے، یہی تعلق انسانی جسم کو رات کو اٹھنے اور پیشاب کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔

اس ناپختہ تعلق میں اکثر مزید الجھاؤ اس وجہ سے بن جاتا ہے کہ بچوں کے مثانے اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ رات کے وقت ان کا جسم جو پیشاب تیار کرتا ہے وہ اپنے اندر جمع نہیں کرپاتے چنانچہ رات کو سوتے وقت بستر گیلا ہوجاتا ہے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بستر گیلا کرنے کی عادت جنیاتی ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر بستر گیلا کرنے والے بچے کی والدہ یا والد، خالہ، پھوپھی، چچا، ماموں، یا بھائی، بہن میں سے کوئی ایک ایسا ضرور ہوتا ہے جو بستر گیلا کرتا ہے۔ بستر گیلا کرنے کا تعلق جگہ کی تبدیلی اور دباؤ سے بھی ہوسکتا ہے۔ گھر میں نئے مہمان کی آمد، گھر کی تبدیلی، یا اہل خانہ میں کوئی دوسری تبدیلی سے بھی بچوں میں رات کو بستر گیلا کرنے کا رجحان پیدا ہوسکتا ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم والدین کو اس مشکل سے نجات دینے کے لیے طریقے بتائیں، یہ 3 اہم باتیں اچھی طرح نوٹ فرمالیں۔

پہلی، آپ کا بچہ کم از کم 8 برس کا ہونا چاہیے اور مزید اچھی بات تب ہے کہ اگر اس نے ماضی میں چند راتیں خشک بستر کے ساتھ گزاری ہوں یا پھر بستر گیلا کرنے کے عمل میں کسی بھی طور پر کمی واقع ہونا شروع ہورہی ہو۔

دوسری، آپ کے بچے کو بستر گیلا کرنے کے بارے میں پرواہ ہونی چاہیے۔ اگر اسے بستر گیلا ہونے پر کوئی پرواہ نہیں تو اس طرح بچے میں اس عادت کو ختم کرنے کی ترغیب نہیں ملے گی۔

تیسری اور آخری بات یہ کہ رات کو بستر گیلا کرنے کے پیچھے کسی قسم کی طبی وجوہات کی علامات نہیں ہونی چاہیے۔ خاص طور پر اگر بچے نے مسلسل مہنیوں تک ایک رات بھی خشک بستر کے ساتھ نہ گزاری ہو، پیشاب کرتے وقت یا اس کے بعد درد کی شکایت ہو، خراٹے لیتا ہو یا پھر اضافی بھوک پیاس لگتی ہو۔

—شٹر اسٹاک

جن بچوں میں مذکورہ علامات پائی جاتی ہوں انہیں رات کو بستر خشک رکھنے کی ترتبیت دینے سے قبل لیبارٹی ٹیسٹ کروائے جانے یا ماہر ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

ایک بار جب آپ کا بچہ تربیت حاصل کرنے کے لیے تیار ہوجائے تو رات کو سونے سے قبل ایک بہتر روٹین مرتب کردیں، جس میں باقاعدگی کے ساتھ وقت پر بستر پر جانے کی عادت بھی شامل ہے۔

بچوں کو نہلانے اور کہانیاں سنانے کے بعد بچوں کو بستر سے باہر نکلنے اور باتھ روم جانے کے لیے کہیں۔ یہ یقینی بنا لیجیے کہ بستر سے باتھ روم تک راستے میں چیزیں بکھری نہ ہوں اور وہاں کافی روشنی بھی ہو۔

مزید پڑھیے: دودھ پلانے والی ماؤں کو کھانے کی کن چیزوں سے احتیاط کرنی چاہیے؟

دوسرا یہ کہ بچے کی پاخانے کی عادات پر بھی نظر رکھیں۔ بچے کو بستر گیلا کرنے کی عادت کو چھڑوانے میں قبض آپ کے لیے دشواری پیدا کرسکتا ہے۔ پاخانے کی زیادتی مثانے پر زور ڈال سکتی ہے، جس کے باعث اس میں مائع کو مناسب انداز میں جمع کرنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اس طرح مثانہ مزید چھوٹا ہوجاتا ہے اور رات کے وقت مثانہ پوری طرح بھر جاتا ہے یوں پھر بچہ رات کو بستر گیلا کردیتا ہے۔ بچے کے ساتھ اس مرحلے کے بارے میں بات بھی کیجیے۔ اپنے بچے سے بولنے کے لیے کہنا کہ، ’مجھے پیشاب کرنا ہے تو مجھے اٹھ جانا ہے۔‘ کافی عجیب لگ سکتا ہے، لیکن اس طرح کا زبانی پلان دماغ اور مثانے کے درمیان تعلق کو بہتر بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

بہرحال بستر گیلا کرنے کا سب سے عام علاج وقت ہی کرتا ہے۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں ان کے دماغ اور مثانے کے درمیان تعلق بھی پختہ ہوتا جاتا ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ آپ کی جانب سے کسی قسم کی کوششوں کے بغیر ہی بچوں میں یہ عادت کم سے کم تر ہوتی جائے گی۔ اگر آپ بچے کی صحت کو لے کر پریشان ہیں یا پھر آپ کا بچہ بستر گیلا کرنے کے بارے میں کسی پریشانی کا اظہار کرتا ہے تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔