پاکستان

حکومت کو چلتا نہیں کیا تو نقصانات کو کور نہیں کرسکیں گے، آصف زرداری

حکومت کے خلاف آواز بلند نہیں کی تو آنے والی نسل معاف نہیں کرے گی، سابق صدر

سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ حکومت کو چلتا نہیں کیا تو نقصانات کو کور نہیں کر سکیں گے جبکہ کپتان کو گھر جانا ہوگا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ 'سیاست میں ایک ہی نظریے پر ہیں کہ حکومت کو چلتا نہیں کیا تو نقصانات کو کور نہیں کر سکیں گے، جبکہ حکومت کے خلاف آواز بلند نہیں کی تو آنے والی نسل معاف نہیں کرے گی۔'

انہوں نے کہا کہ 'کپتان کو گھر جانا پڑے گا لیکن اِن ہاؤس تبدیلی ہوگی یا وسط مدتی انتخابات ہوں گے یہ وقت بتائے گا، جبکہ ہم نے قیادت نہیں کی تو کوئی اور طاقت آئے گی۔'

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی عیادت سے متعلق سوال کے جواب میں سابق صدر نے کہا کہ 'بلاول بھٹو، نواز شریف کی عیادت کر چکے ہیں۔'

حکومت کے خلاف عملی طور پر تحریک کے آغاز کے وقت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'یہ وقت اور موسم پر منحصر ہے۔

اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'ملاقاتیں معمول کا حصہ ہیں، آج کی ملاقات بھی کھانے کی دعوت تھی جبکہ نواز شریف سے بھی ملاقات میں تفصیلی باتیں ہوئی تھیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'آج عشائیہ میں شرکت کے علاوہ کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'موجودہ سیاسی صورتحال پر مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی ہے جبکہ جعلی حکمرانوں سے قوم کو نجات دلانے کے لیے یکسو ہیں۔'

ایک صحافی نے سوال کیا کہ عمران خان کہتے ہیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نریندر مودی کا جیتنا ضروری ہے، جس پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'مودی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے۔'

— فوٹو: نادر گرامانی

قبل ازیں زرداری ہاؤس اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن نے سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔

باخبر ذرائع کے مطابق ملاقات میں سربراہ جے یو آئی (ف) نے آصف زرداری کو نواز شریف سے ملاقات سے متعلق آگاہ کیا اور انہیں سابق وزیر اعظم کی عیادت کرنے کی تجویز دی۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں اپوزیشن کا متحد ہونا وقت کی ضرورت ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی حکمت عملی پر مشاورت کی۔