پاکستان

بلاول بھٹو نے تھر میں 330 میگا واٹ کے 2 بجلی گھروں کا افتتاح کردیا

ہم کسی اور کے منصوبے پر اپنی تختی نہیں لگاتے،آج بینظیر شہید کے شروع کیے گئے منصوبے کا افتتاح کرنے پر فخر ہورہا ہے،بلاول
| |

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سندھ میں کوئلے کی دولت سے مالا مال علاقے تھر میں 330 میگا واٹ کے 2 بجلی گھروں کا افتتاح کردیا۔

افتتاح کے لیے بلاول بھٹو تھر کول فیلڈ میں نئی سینگیڑی گاؤں پہنچےجہاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سندھ کابینہ کے اراکین، ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اور چیف سیکریٹری سندھ نے ان کا استقبال کیا۔

منصوبے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پروجیکٹ ڈائریکٹر فیصل شفیق نے بتایا کہ تھر کول منصوبہ 4اپریل 2016 کو شروع کیا تھا جس کی تکمیل میں 36 ماہ لگے اس میں330 میگا واٹ کے 2 یونٹ ہیں، ایک مکمل ہے اور ایک کا افتتاح آج کیا گیا جبکہ دونوں یونٹ واپڈا سے منسلک اور نیشنل گرڈ سے منسلک ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ابھی 330 میگاواٹ بجلی پیدا نہیں ہوئی، اس کے مراحل ہوتے ہیں جن پر آہستہ آہستہ عمل ہوتا ہے چنانچہ رواں سال جون میں کمرشل آپریشن تک 330 میگاواٹ بجلی پیداوار بن جائے گی تاہم اس وقت 100 میگاواٹ بجلی پیدا کر کے نیشنل گرڈ بھیج رہے ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل تھر میں موجود کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ سے پہلی مرتبہ بجلی کی پیداوار شروع ہوگئی تھی اور 19 مارچ کو 330 میگا واٹ کے ایک بجلی گھر سے حاصل ہونے والی100 میگا واٹ بجلی کو نیشنل گرڈ میں شامل کردیا گیا تھا۔

دوسری جانب چیئرمین پی پی پی تھر کے دورے کے دوران کول مائن اور تھر کول بلاک 2 بھی گئے اور اوپن پٹ مائن کا معائنہ کیا جہاں انہیں کوئلے کی کوالٹی، اس کی کان کنی کے حوالے سے بریف کیا گیا۔

اس موقع پر بلاول بھٹو نے کان کنی کے کام کا معائنہ کیا اور کان کنوں سے بھی ملاقات کی۔

تھرر کے دورے کے دوران بلاول بھٹو کے ساتھ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیر توانائی امتیاز شیخ بھی موجود ہیں جنہوں نے چیئرمین پی پی پی کو تھر کول منصوبے کے متاثرین کے حوالے سے بریفنگ دی۔

وزیراعلیٰ نے بتایا کہ نئےگھروں کےہر 12 گھروں کے گروپ کو ایک کھیل کا میدان، مسجد، مندر سمیت اسکول، اسپتال، بجلی ودیگر سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تھر کول منصوبہ: 'اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچانا ممکن'

بلاول بھٹو نے تھر کول فیلڈ کے متاثرین کے لیے تعمیر کیے گئے گھروں کا معائنہ کیا اور نئے گھروں کے مکینوں سے ملاقات بھی کی۔

سینہری درس گاؤں میں انہیں تھر کول کے نصیر میمن نے بریف کرتے ہوئے بتایا کہ گاؤں میں 172 گھر ہیں جس میں سے 86 گھر آباد ہوچکے جن میں 500 افراد رہائش پذیر ہیں جبکہ مزید افراد منتقل ہورہے ہیں۔

اس موقع پر پی پی پی چیئرمین نے اپنے موبائل سے گھروں کی فوٹیج بنائی اور سیلفی لی، انہوں نے اتنے بڑے پیمانے پر تھر میں ترقی کا اصل کریڈٹ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو دیا۔

یہ ہوتی ہے فلاحی ریاست، یہ ہے نیا پاکستان، بلاول بھٹو

تھر کول بجلی گھر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے تھر میں این ای ڈی یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کا اعلان کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج مجھے بہت فخر ہورہا ہے کہ 1994 میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور سندھ کے وزیراعلیٰ سید عبداللہ علی شاہ نے جس منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا آج میں اور مراد علی شاہ اس کا افتتاح کررہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے سے پی پی پی حکومت کا کام نظر آتا، بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے عوام کی ترقی کا نظریہ متعارف کروایا جس کے تحت ہم نے سندھ میں متعدد منصوبے شروع کیے ہیں اور یہ سندھ کا سب سے کامیاب پبلک پارٹنر شپ منصوبہ ہے۔

بلاول بھٹو نے تھر میں این ای ڈی یونیورسٹی کیمپس کھولنے کا بھی اعلان کیا۔ فوٹو:ڈان نیوز

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے جریدے اکنامسٹ نے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے حوالے سے ایشیا کے متعدد ممالک پر فہرست مرتب کی اور خوشی کی بات یہ ہے کہ سندھ اپنے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ منصوبوں کی بدولت 6 نمبر پر ہے یہ ہماری حکومت کی کاوشوں کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ہے۔

یہ بھی دیکھیں: تھر کول منصوبہ: ایک خواب جو تعبیر ہورہا ہے

ان کا کہنا تھا کہ لیکن تھر کےکوئلے پر اصل حق یہاں کے مقامی لوگوں کا ہے جنہیں اس کے فوائد پہنچانے کے لیے ان مقامی افراد کو مفت بجلی فراہم کی جائے گی اور ان کے بجلی کے بلز کی ادائیگی سندھ حکومت کرے گی۔

انہوں نے کہ سی پیک منصوبوں میں بھی اس طرح مقامی افراد کو فائدہ پہچانا چاہیے جس طرح تھر کول منصوبے میں 70 فیصد ملازمتوں پر تھر کے عوام اور باقی 30 فیصد دیگر لوگوں کو حق دیا جاتا ہے۔

تھر میں جاری منصوبوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ تھر میں کھارے پانی کے استعمال سے کاشت کاری ہورہی ہے اور معجزہ ہے کہ صحرا میں مچھلی پیدا ہورہی ہے جسے فروخت کر کے تھر کے عوام کو فائدہ پہنچایا جائے گا۔

اس ضمن میں انہوں نے اعلان کیا کہ تھر میں این ای ڈی یونیورسٹی کا کیمپس کھولا جائے گا ان کا کہنا تھا کہ اس وقت وفاقی حکومت ہمیں پیسہ نہیں دے دہی جس کے لیے ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے جلد کثیر المضامین یونیورسٹی کا بھی آغاز کریں گے۔

اس موقع پر چیئرمین پی پی پی نے معاونت کرنے پر چین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ چین نے پاکستان کے دوست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے شانہ بشانہ کام کیا۔

مزید دیکھیں:خاتون ٹرک ڈرائیوز بھی تھر کول منصوبے کا حصہ

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت کئی منصوبے بن رہے ہیں لیکن ایسا شاندار منصوبہ کہیں نہیں دیکھا کہ جس میں مقامی لوگوں کو اتنی اچھی طریقے سے متبادل دیا گیا ہو، جن خواتین کو مواقع میسر نہیں تھے آج تھر کی وہ خواتین انجینئرنگ سے لے کر ٹرک چلا رہی ہیں اور پیسہ کما کر اپنے گھر والوں کی زندگی بہتر بنا رہی ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ سندھ حکومت آئے روز اپنے منصوبوں کا افتتاح کررہی ہے ہم کسی اور کے منصوبے پر تختی نہیں لگاتے یہ ہوتی ہے فلاحی ریاست، یہ ہے نیا پاکستان۔

منصوبے پر سخت مخالفت کا سامنا کیا، وزیراعلیٰ سندھ

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ اس منصوبے میں ہمیں کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کوئی اور حکومت ہوتی تو یہ منصوبہ چھوڑ چکی ہوتی ہمیشہ کہا گیا کہ یہاں کوئلہ موجود نہیں لیکن ہم نے یوٹرن نہیں لیا۔

مراد علی شاہ نے بتایا کہ پی پی حکومت ختم ہوتے ہی منصوبے کو پست پشت ڈال دیا گیا۔ فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ منصوبے پر 70 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے اور منصوبے کے حوالے سے بہت سخت مخالفت کا سامناکرنا پڑا لیکن ہمارا ارادہ اتنا ہی مضبوط ہوچکا ہوتا۔

1996 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو یہ کہ کر منصوبہ پسِ پشت ڈال دیا گیا کہ یہ پیپلز پارٹی کا منصوبہ ہے تاہم آصف علی زرداری جب صدر تھے تو انہوں نے منصوبے پر کام کرنے کی ہدایت کی۔

منصوبے کے آغاز کے لیے ہم دنیا بھر میں گئے لیکن چائنا سمیت کسی نے تعاون نہیں کیا اس وقت اینگرو نے سندھ حکومت کی شراکت داری پر کام کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔

سندھ میں بھاری مقدار میں کوئلہ موجود ہے،پروجیکٹ ڈائریکٹر

قبل ازیں تھرکول مائننگ کمپنی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر فیصل شفیق نےوزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان اور جی ایم مینیجر اینگرو کمپنی فرحان انصاری کے ہمراہ تھر کول منصوبے کے حوالے پریس کانفرنس کی تھی۔

مزید پڑھیں: تھر کول منصوبے سے پہلی مرتبہ بجلی کی پیداوار

انہوں نے بتایا کہ ٹائل آف آپریشن کا وقت آگیا ہے، جس میں ڈھائی ماہ کا وقت صرف ہوگا جبکہ سیسٹین ایبل کمرشل آپریشن رواں سال جون تک ہوجائے گا۔

پروجیکٹ ڈائریکٹر کےمطابق تھر میں کوئلہ کی دریافت کے حوالے سے محترمہ بینظیر بھٹو کا ایک وژن تھا، جس پر محترمہ بینظیر نے 1994 میں کام کروایا تھا تاہم ان کی حکومت جانے کے بعد بڑے عرصہ تک کام نہیں ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت نے 2009 میں دوبارہ اس پر کام کرنا شروع کیا جس کے لیے یونس آغا نے منصوبہ کو آر ایف پی کیا اور سندھ اینگرو کمپنی نے سندھ حکومت کے ساتھ مل کر منصوبہ پر کام کیا۔

مزید پڑھیں: تھرکول منصوبے کے متاثرین کیلئے 95 کروڑ روپے کی گرانٹ منظور

ان کا مزید کہنا تھا کہ منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں 9 سال کا طویل عرصہ لگا اور اسی عرصے کے دوران کان کنی کی ڈیولپمنٹ اور پاور پلانٹ کی تعمیر بھی ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ کوئلہ دریافت ہونے سے پہلے ہی سرمایہ کاروں کو لانا مشکل کام تھا، اس سے قبل ایکسپلوریشن، فزیبلٹی چیک کرنا اور سہولیات دینا مشکل مراحل تھے تاہم سندھ حکومت کی دلچسپی، وفاق اور اینگرو کی سپورٹ سے منصوبہ حتمی شکل تک پہنچا۔

انہوں نے بتایا کہ کان کنی میں دیگر کمپنیاں شراکت دار ہیں لیکن پاور پلانٹ میں کوئی شراکت دار نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تھر کول منصوبے میں ڈمپرز چلانے والی ’خواتین‘ ڈرائیورز

فیصل شفیق نے منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے مزید کہا کہ اینگرو کے دو یونٹس تھے جوکہ مکمل ہوگئے ہیں جبکہ ایک اور ڈیولپر کے پاور پلانٹ پر کام ہونا ہے وہ بھی جلد شرمندہ تعبیر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ منصوبے سے ماحولیاتی اثرات کے متعلق اینگرو نے واضح تفصیلات دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا ہو یا مقامی افراد سب ہی کو بتاتے آئے ہیں ماحولیاتی آلودگی50 فیصد کے اوپر ہوتی ہے لہٰذا تسلی ہونی چاہئے کہ منصوبہ سے ماحولیاتی اثرات نہیں پڑے گا۔

کوئلے کی کان کنی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جس طرح کا کوئلہ ہمارے پاس ہے اس پر سب کیٹیگری بنتی ہے، سب سے ینگسٹ کوئلہ ہے ججس لیگنائٹ کوئلہ کہا جاتا ہے اور اس میں آدھا پانی ہے جوکہ کچہ کوئلہ بھی کہلاتا ہے تاہم دنیا میں جرمنی اور دیگر ممالک میں اسی کوئلے سے بجلی پیدا کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: تھر کول منصوبے میں بدعنوانی پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب سے ینگسٹ کوئلہ ہے جو جتنا زیادہ عرصے کوئلہ زیر زمین رہتا ہے اتنا ہی ہارڈ ہوتا ہے تاہم پاور پلانٹ کے لیے کوئلے کا معیار اچھا ہے اور سندھ میں اتنا کوئلہ ہے کہ کئی سو سالوں تک نکالا جاسکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھاکہ منصوبے میں چائنیز بڑے ٹھیکیدار تھے لیکن مقامی افراد کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا، 4 ہزار ملازمین میں سے ڈھائی ہزار ملازمین مقامی ہیں تاہم منصوبہ کا کام مکمل ہونے پر کچھ افراد کو نکالا بھی گیا ہے لیکن اب دیگر بڑے منصوبے شروع ہو رہے ہیں تو اس میں انہیں روزگار ملے گا۔