نقطہ نظر

گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر سفر کرنے کی جھنجھٹ

ایک شخص اوسطاً ہفتے میں 5 سے 6 دن کام پر جاتا ہے اور فی دن اس کے 3 سے 4 گھنٹے اسی آنے جانے میں لگ جاتے ہیں۔
لکھاری صنعتی تعلقات کے پروفیشنل ہیں

کام کی غرض سے سفر کرنے کے لیے افراد کے دن کا ایک بڑا حصہ سفر میں گزر جاتا ہے۔ ایک شخص اوسطاً ہفتے میں 5 سے 6 دن کام پر جاتا ہے اور فی دن اس کے 3 سے 4 گھنٹے اسی آنے جانے میں لگ جاتے ہیں۔ کام کی جگہوں پر پیدل چلنے کے علاوہ لوگ اپنی آمدن اور استطاعت کے مطابق سائیکلوں، موٹر سائیکلوں، ویگنز، بسوں اور گاڑیوں وغیرہ کے ذریعے بھی یہ سفر طے کرتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں سینئر ایگزیکیٹو کے درجے کے امیر افراد کو بھی جسمانی تندرستی کی خاطر سائیکل پر سفر کرتے ہوئے دیکھنا عام سی بات ہے۔ میں نے ایک بار بڑے جاپانی کاروباری فرد سے پوچھا کہ ان کا بیٹا تو لیکسز (گاڑی) ڈرائیو کرتا ہے مگر وہ اپنے دفتر جانے کے لیے سائیکل کا استعمال کرتے ہیں، تو ایسا کیوں ہے؟ اگرچہ سائیکل کے استعمال کی ایک وجہ ورزش تھی، مگر انہوں نے مجھے اس کا جواب کچھ یوں دیا۔ ’میں ایک غریب آدمی کا بیٹا ہوں اور وہ ایک امیر باپ کا بیٹا ہے‘۔

لیکن پاکستان کے بڑے شہروں میں بے ترتیب ٹریفک کی صورتحال کے خوف سے کوئی بھی شخص یہ رسک نہیں لینا چاہے گا۔

پلانٹ سائٹس کی بات کی جائے تو وہاں پیدل چلنے کا آپشن دستیاب ہوتا ہے، جہاں ملازمین کے لیے رہائشی کالونیاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ عام طور پر ایسے مقامات پر کالونیاں پلانٹ کے قریب ہی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ملازمین پیدل چل کر ہی اپنی کام کی جگہوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ سندھ کے اندر ڈہرکی اور میرپور ماتھیلو اور پنجاب کے اندر صادق آباد، رحیم یار خان اور کھیوڑہ ایسے مقامات کی مثالیں ہیں۔

ڈہرکی میں کھاد بنانے والے پلانٹ اور اس کی (انتظامی و غیر انتظامی اسٹاف کی) کالونیوں کے درمیان فاصلہ ایک کلومیٹر پر محیط ہے۔ 1970ء کی دہائی کے آخر میں جن دنوں میں وہاں ملازم تھا تب اکثر شام کے وقت میں اپنے گھر پیدل جایا کرتا تھا۔

گزرتے وقت کے ساتھ کام کی جگہوں تک پہنچنے اور پھر گھر لوٹنے کے ذرائع آمد و رفت بھی بدلتے رہتے ہیں۔ لاہور میں واقع ماڈل ٹاؤن کوآپریٹو سوسائٹی اپنے رہائشیوں کے لیے بہترین سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہاں چند رہائشی تو آزادی سے بھی پہلے کے آباد تھے۔ چونکہ یہ مقام شہر سے دُور تھا اس لیے سوسائٹی کی جانب سے مخصوص راستوں پر 2 بسیں چلائی جاتی تھیں، تاکہ وہاں کے رہائشیوں کو اپنے دفاتر اور گھر تک پہنچنے میں سہولت رہے۔ یہ سروس 1970ء کی دہائی کے وسط تک جاری رہی۔ میں اس عرصے ماڈل ٹاؤن سے کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن کے برابر میں موجود فیکٹری میں واقع اپنے دفتر سائیکل پر جایا کرتا تھا۔

میں 1980ء کی دہائی کے دوران ایک برطانوی کمپنی میں ملازمت کررہا تھا، جس کا پلانٹ لاہور سے 30 کلومیٹر سے بھی دُور شیخوپورہ میں واقع تھا۔ منیجر حضرات پہلے اپنی ٹرانسپورٹ کے ذریعے لاہور کے علاقے گلبرگ میں واقع پلانٹ کے صدر دفتر آتے اور پھر وہاں سے کوسٹر پر سوار ہوتے جو انہیں شیخوپورہ میں پلانٹ کے مقام پر لے جاتی۔ 2 مرحلوں میں طے ہونے والے اس سفر میں تقریباً 3 گھنٹے لگ جایا کرتے تھے۔

شیخوپورہ روڈ پر واقع فیکٹریوں کے اکثر مالکان اپنے ملازمین کی سفری سہولت کے لیے کمپنی ٹرانسپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ تاہم کراچی کے سائٹ ایریا میں ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے جہاں ملازمین کو اپنی اپنی کام کی جگہوں پر پہنچنے کے لیے خود ہی انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔ جس کے سبب ان کی زندگیاں 2 وجوہات کی وجہ سے اور بھی زیادہ مشکل سے دوچار ہوجاتی ہیں۔ پہلی وجہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور دوسری وجہ اندرون ملک جانے اور وہاں سے آنے والے کنٹینر کی لمبی لمبی قطاریں۔

کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب سفر آرام و سکون سے گزرا ہو بلکہ ہفتے کے 2 سے 3 دن ماڑی پور روڈ پر بھاری ٹریفک جام رہتا ہے جہاں گھر کو لوٹنے والے ملازمین کئی کئی گھنٹے پھنسے رہتے ہیں۔

رات دن کام کرنے والی صنعتوں کے مالکان زیادہ تر اپنے شفٹ ملازمین کو کمپنی کے زیرِ انتظام ویگن سروسز فراہم کرتے ہیں، کیونکہ رات کے وقت عوامی ٹرانسپورٹ کے ذریعے کام کی جگہوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم مسائل اس وقت سر اٹھانے لگتے ہیں جب شہر میں ہڑتالیں ہوں اور ٹریفک کی نقل و حرکت محدود ہوجائے۔

ایسی صورتحال میں فیکٹری انتظامیہ کے پاس واحد آپشن یہ رہ جاتا ہے کہ ملازمین کو کام کی جگہوں تک ہی محدود رکھا جائے اور ان سے 2 شفٹوں یا پھر 3 شفٹوں یعنی 24 گھنٹے کا اوور ٹائم کام لیا جائے۔ اس طرح مسلسل طویل وقت تک کیا جانے والا یہ کام نہ صرف ملازمین کے لیے انتہائی تھکادینے والا ہوتا ہے بلکہ اس طرح انہیں کسی قسم کے حادثے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

جب پاکستان اسٹیل ملز کا عروج تھا تو ان دنوں ملز کی انتظامیہ کراچی میں بڑی تعداد میں بسیں چلایا کرتی تھی جو ملازمین کو پورے شہر سے اٹھایا کرتی تھی اور دوبارہ ان کے رہائشی علاقوں تک چھوڑنے جاتی تھیں۔ اگرچہ ملز میں کام کرنے والے 20 ہزار سے زائد ملازمین میں سے ایک اچھی خاصی تعداد اسٹیل ملز کے قریب واقع گلشن حدید یا اسٹیل ٹاؤن کی آبادیوں میں رہائش پذیر تھی، مگر پھر بھی ملازمین کی اکثریت شہر سے ہی آیا کرتی۔ چونکہ وہاں ضرورت سے زیادہ اسٹاف موجود ہوتا اس لیے بس کی یہ سواری ان لوگوں کے لیے ایک باعثِ لطف سفر ہوا کرتا جن کے پاس کرنے کو زیادہ کام نہیں ہوتا تھا۔

آج کی بات کریں تو میں گزشتہ 14 برسوں سے اسٹیڈیم روڈ پر واقع ایک ہسپتال میں کام کر رہا ہوں، اور گھر سے ہسپتال کے درمیان روزانہ 30 کلومیٹر سے زائد سفر کرتا ہوں۔ جس کے بعد کار پارکنگ سے اپنے دفتر تک پہنچنے کے لیے مجھے مزید نصف کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ شفٹوں میں کام کرنے والا اسٹاف مثلاً نرسیں اور ٹیکنکل اسٹاف، زیادہ تر یا تو اپنی سواری یا پھر کنٹریکٹر/پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے ہسپتال آتے ہیں لہٰذا انہیں وقت پر پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔

میٹرو بس متعارف کروانے اور سرکولر ریلوے کی بحالی سے یقیناً مشکلات کا سامنا کرتے عوام کی دشواریوں میں کمی واقع ہوگی۔


یہ مضمون 10 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

پرویز رحیم

لکھاری آغا خان یونیورسٹی میں کنسلٹنٹ برائے ایمپلائی ریلشنز ہیں اور آئی ابی اے میں لیبر ویلفیئر قوانین پڑھاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔