’اب کی بار آم زیادہ میٹھے ہوں گے‘

لیجیے صاحب! گرمیاں آگئیں، اب آم آئیں گے۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوگا، کیونکہ آم پچھلی حکومتوں میں بھی آتے تھے۔ ایمان سے، ہم نے خود ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھے اور گناہ بہ شکل گفتار کرتے منہ سے کھائے ہیں۔
یوں تو پچھلی حکومتوں میں بھی آم میٹھے ہی آتے تھے لیکن اس بار لگ رہا ہے حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی میٹھے آئیں گے، کیونکہ آموں کو خود یہ خیال ہوگا کہ انگور کھٹے ہیں، اس لیے کم از کم ہم تو میٹھے ہوجائیں۔ آم بہت میٹھے ہوں گے اس لیے بہت زیادہ کھائے جائیں گے، کیونکہ یہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تُھو تُھو کا دور ہے، اور اگر کڑوا سچ کا ہو تو پھر تُھو تُھو کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے۔
صرف تُھو تُھو کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، مسئلہ تب ہوتا ہے جب ایک دوسرے پر تُھو تُھو ہوتی ہے اور بات ’تُو تُو میں میں‘ سے بڑھ کر ’تُھو تُھو میں میں‘ تک جا پہنچتی ہے۔ ان دنوں سچ کچھ زیادہ ہی کڑوا ہے، چنانچہ تُھو تُھو بھی زیادہ ہورہی ہے، اسی لیے اس موسم میں آم کہیں زیادہ کھائے جائیں گے۔
جب آم کی طلب بڑھے گی تو لازمی طور پر اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا۔ مگر آم مہنگے ہونے میں حکومت کا کوئی قصور نہیں ہوگا، کیونکہ ’انصاف‘ کی بات ہے کہ مہنگائی پچھلی حکومت کے کرتوتوں کی وجہ سے ہوتی ہے، نئے پاکستان کی نئی معاشیات کا سبق بھی یہی ہے۔ تو بات یہ ہوئی کہ آم میٹھے موجودہ حکومت کی وجہ سے ہوں گے اور مہنگے پچھلی حکومت کی وجہ سے۔
آم کے دام بڑھنے کے باعث اب ’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘ ملنا ممکن نہیں ہوگا۔ ممکن ہے گٹھلیاں آم کے دام ملیں۔ لیکن آپ گٹھلیاں خریدیں نہ خریدیں ہم تو ضرور خریدیں گے۔ انہیں اپنے دروازے کے سامنے پھینک کر کم از کم پڑوسیوں پر یہ بھرم تو قائم رہے گا کہ ہم کوئی گئے گزرے نہیں، وہ خاص ہیں جو آم کھاتے ہیں۔
اگر پڑوسیوں نے پوچھا کہ بھیا! گٹھلیاں نظر آرہی ہیں چھلکے کہاں گئے؟ تو کہہ دیں گے گھر میں بکری پال رکھی ہے وہ کھا گئی۔ اس جھوٹ کے پاؤں لگانے کے لیے ہمیں بار بار بکری کی طرح ’مے مے‘ کرکے پڑوسیوں کو گھر میں اس کے ہونے کا یقین دلانا پڑے گا، سو یہ بھی کرلیں گے۔ بس آپ دعا کریں کہ سمندر سے تیل اور ہمارے منہ سے بکری کی آواز نکل آئے۔
مسئلہ صرف پڑوسیوں پر رعب ڈالنے کا نہیں، دراصل ہمیں بھی مرزا غالب کی طرح آم بہت پسند ہیں، انہیں تو خیر ’جام‘ سے بھی بڑی رغبت تھی، لیکن جیب کی تنگی اور قانون کی تنگ نظری نے ہمیں اس جانب راغب نہیں ہونے دیا۔ یوں ہمیں اپنے آپ ہی سے یہ سبق ملا کہ تقویٰ اور تنخواہ میں کتنا گہرا تعلق ہے۔ ساغر صدیقی نے شاید یہی کہا تھا ناں:
آو اک سجدہ کریں عالمِ ’مجبوری‘ میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
تو ہم نے بھی عالم مجبوری کو کردار کے باعث معذوری کا نام دے کر غالب کی مے نوشی کے بجائے ان کی ’مینگو چوسی‘ کے شوق ہی پر اکتفا کیا۔
غالب نے کہا تھا کہ ’آم میٹھے ہوں اور بہت سے ہوں‘ لیکن اس بابت ہمارا قول ہمارے حالات کے مطابق ہونے کی وجہ سے ذرا مختلف ہے۔ ہم فرماتے ہیں، ’آم مفت کے ہوں اور سامنے ہوں‘۔
مگر لگتا یہی ہے کہ ہماری مفت خوری کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ آم کے نرخ اس بام پر پہنچیں گے کہ جس طرح دعوت گناہ دینے پر پولیس پکڑلیتی ہے۔ اسی طرح دعوت آم دینے پر نیب یہ کہہ کر جکڑ لے گی کہ اتنا پیسہ آیا کہاں سے، منی ٹریل دکھاو؟ ان حالات میں ہماری تنخواہ کتنی ہی تیز رفتاری سے دوڑے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ’لنگڑا‘ بھی ہاتھ نہیں آنے کا۔ سو ہم نے سوچا ہے کہ اگر آم کے دام اور نام پر گٹھلیاں میسر آگئیں تو سونگھ کر گزارہ کرلیں گے۔
علامہ اقبال کو اکبرالہٰ آبادی نے آموں کا تحفہ بھیجا تو علامہ نے کہا:
اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
الہٰ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک آیا
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔