آشیانہ ہاؤسنگ کیس: نیب پراسیکیوٹر کا کمپنی کے قانونی مشیر ہونے کا انکشاف
اسلام آباد: آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے وکیل دفاع نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ کی جانب سے کیس کی پیروی کرنے پر اعتراض اٹھا دیا۔
وکیل دفاع کے مطابق نیب کے پراسیکیوٹر ’اس کمپنی کے قانونی میشر بھی تھے جس نے اسکیم متعارف کروائی‘۔
وکیل علی رضا نے جسٹس عظمت سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی پینچ کو آگاہ کیا کہ جہانزیب بھروانہ پنجاب لینڈ ڈیولپمنٹ کمپنی کے قانونی مشیر تھے جس نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں ترقیاتی کام کا ٹھیکہ دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل: شہباز شریف ودیگر پر فرد جرم عائد
آشیانہ ہاؤسنگ منصوبے کے کوآرڈینیٹر بلال قدوائی، جو جیل میں قید ہیں، کی نمائندگی کرتے ہوئے وکیل علی رضا نے پینچ کو بتایا کہ جہانزیب بھروانہ کی اس کیس میں حیثیت مرکزی گواہ کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ نیب کی جانب سے جہانزیب بھروانہ کے اس کیس کی پیروی کرنے پر عدالت کے سامنے اعتراض جمع کروائیں گے۔
سپریم کورٹ نے نیب کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد، بلال قدوائی، امتیاز حیدر، منیر ضیا اور دیگر کی جیل سے رہائی کے خلاف نیب کی اپیلوں کو سماعت کے لیے منظور کرلیا۔
مزید پڑھیں: آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل: نیب نے ضمنی ریفرنس دائر کر دیا
تاہم عدالت عظمیٰ نے نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل عمران الحق کی درخواست پر مزید سماعت آئندہ ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی جنہوں نے بینچ کو بتایا تھا کہ جہانزیب بھروانہ ناسازی طبیعت کے باعث حاضر نہیں ہوسکے۔
جس پر عدالت نے کسی دوسرے پراسیکیوٹر کی تعیناتی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اگرچہ آرڈر شیٹ میں نہیں تھا لیکن نیب کو متبادل انتظامات پر غور کرنا چاہیے۔
سماعت ملتوی کرتے ہوئے جسٹس عظمت سعید کھوسہ نے یہ بھی کہا کہ آئندہ سماعت تک اسٹیس کو برقرار رکھا جائے گا، جس کا مطلب یہ تھا کہ جو افراد رہا ہیں وہ جیل سے باہر جبکہ جو جیل میں موجود ہیں وہ قید ہی رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ’آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں کرپشن ثابت ہوجائے تو سیاست چھوڑ دوں گا‘
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ/ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف دائر درخواست کی سماعت ان کے وکیل کی درخواست ملتوی کردی۔
یہ خبر 10 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔