دنیا کے دیگر ممالک میں نوجوان کم عمری میں ہی روزگار کا کوئی نا کوئی ذریعہ ڈھونڈ لیتے ہیں کیونکہ وہاں کا خاندانی نظام پاکستان سے مختلف ہے۔ مجھے 2007ء کا ورلڈ کپ اب بھی یاد ہے جب عالمی کپ میں شرکت کے لیے آنے والی آئرلینڈ کرکٹ ٹیم کے بہت سے کھلاڑی اس لیے مشکل کا شکار ہوگئے تھے کیونکہ وہ اپنی اپنی نوکریوں سے چھٹیاں لے کر ورلڈ کپ کھیلنے آئے تھے، اور غیر معمولی طور پر ان کی ٹیم اگلے راؤنڈ میں پہنچ گئی تھی جس کے سبب ان کی چھٹیاں ختم ہورہی تھی، اور اگلا راؤنڈ کھیلنے کے لیے انہیں مزید چھٹیاں لینی پڑیں۔
یہ ساری تمحید باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ پاکستان کے موجودہ وزیرِاعظم اور سابق کپتان قومی کرکٹ ٹیم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنی ماضی کی خواہش کو دہرایا، دہرایا ہی نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو ہدایت بھی کردی ہے کہ وہ پاکستان کے ڈومیسٹک کرکٹ کے اسٹرکچر کو آسٹریلین طرز کے مطابق ڈھال لیں، اور اس کے لیے کام شروع بھی ہوچکا ہے۔
معاملہ کچھ یہ ہے کہ عمران خان کا تعلق معاشی طور پر مضبوط خاندان سے رہا ہے، اور انہوں نے پاکستان میں کم ہی عرصے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی ہے، لیکن ان کا شروع سے یہی موقف رہا ہے کہ پاکستان میں آسٹریلیا کی طرز پر علاقائی ٹیمیں تشکیل دی جانی چاہیے۔
لیکن ان کے برعکس پاکستان کے ایک اور مایہ ناز کھلاڑی جاوید میانداد ہیں جنہوں نے بین الاقوامی کرکٹ میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے کے ساتھ ساتھ ایک طویل عرصے تک ڈومیسٹک کرکٹ بھی کھیلی ہے۔ جاوید میانداد ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے وہ کھلاڑی تھے جن کی قومی ٹیم میں شمولیت سے پہلے ہی لوگ ان کی صلاحیت سے متاثر ہوگئے تھے۔
میانداد کے بارے میں مشہور ہے کہ جب پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار نے ان کو نیٹ پر بیٹنگ کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے اپنے اطراف موجود لوگوں سے کہا کہ یہ لڑکا مستقبل میں پاکستان کی قومی ٹیم کا کپتان بنے گا۔ جاوید میانداد اس اعتبار سے بھی خوش نصیب تھے کہ ان کو اپنے والد کا مکمل طور پر تعاون حاصل تھا، جو اپنی سائیکل پر جاوید میانداد کو کھیلنے اور پریکٹس کرنے کے لیے کراچی میں قائم مختلف میدانوں میں لے کر جایا کرتے تھے۔ اپنے ڈومیسٹک کرکٹ کے تجربے کی بنیاد پر جاوید میانداد ہمیشہ ڈپارٹمنٹس کی کرکٹ ٹیموں کے حق میں رہے ہیں، کیونکہ ڈپارٹمنٹ کی وجہ سے نوجوان بہت حد تک فکرِ معاش سے بے فکر ہوکر ساری توجہ اپنے کھیل پر رکھ پاتے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ڈپارٹمنٹ کرکٹ کا آئیڈیا کاردار صاحب نے ہی دیا تھا اور انہیں کے دیے گئے آئیڈیے بعد یہاں ڈپارٹمنٹ کرکٹ نے فروغ پایا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی نوجوان کھلاڑی کے والدین یہ بات پسند نہیں کریں گے کہ ان کا بیٹا کرکٹ کے ساتھ ساتھ اپنی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کسی جنرل اسٹور پر یا ریسٹورنٹ پر نوکری کرے اور اگر کوئی ماں باپ راضی ہو بھی جائیں گے تو 7 یا 8 گھنٹے کی نوکری کے بعد کسی کے پاس اتنا وقت اور اتنی صلاحیتیں کیسے بچ سکتی ہے کہ وہ اپنے کھیل پر توجہ دے سکے؟
اس صورتحال میں ڈپارٹمنٹس کلیدی کردار ادا کرتے ہیں جو کھلاڑی کو باعزت روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کھیل میں نکھار لانے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ اسپورٹس کی بنیاد پر ڈیپارٹمنٹ کا حصہ بننے والے کھلاڑی نے اپنی محنت اور لگن کے باعث اداروں کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
وقار یونس اس کی ایک زبردست مثال ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے سپر وِلز کپ کے میچ میں دہلی کے مقابلے میں وقار یونس یونائیٹڈ بینک کی نمائندگی کر رہے تھے۔ یہ میچ پاکستان ٹیلی ویژن پر براہِ راست نشر کیا جا رہا تھا۔ عمران خان جو اس وقت قومی ٹیم کے کپتان تھے انہوں نے ٹیلی ویژن پر یہ میچ دیکھ کر وقار یونس کو فوری قومی ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حالانکہ اس وقت تک وقار نے صرف 6 فرسٹ کلاس میچز کھیلے تھے اور اگر اس اہم میچ میں سلیم جعفر کے زخمی ہونے کی وجہ سے ان کو کھیلنے کا موقع نہیں ملتا تو شاید قومی ٹیم میں شامل ہونے کے لیے ان کو مزید انتظار کرنا پڑتا۔
عمران خان کی سوچ یہ ہے کہ علاقائی ٹیموں کے مابین ہونے والے مقابلوں میں عوام کی دلچسپی زیادہ ہوگی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آج کل پاکستان کپ کے میچز جاری ہیں لیکن علاقائی ٹیموں کی بنیاد پر کھیلے گئے اس ٹورنامنٹ میں عوام کی دلچسپی بہت کم ہے۔ عوام غیر معروف کھلاڑی کے بجائے نامور کھلاڑیوں کو دیکھنا پسند کرتے ہیں اور وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کا پسندیدہ کھلاڑی کسی علاقے کی ٹیم سے کھیل رہا ہے یا کسی ڈپارٹمنٹ کی ٹیم سے۔
خرم ضیاء خان
خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔