پاکستان

’خادم حسین ضمانت دیں، رہائی کے بعد امن و امان میں خلل نہیں ڈالیں گے‘

لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے 11 اپریل کو کیس میں فریقین کے وکلا کو دلائل کے لیے بھی طلب کرلیا۔

لاہور ہائی کورٹ نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے صدر خادم حسین رضوی کی ضمانت کی درخواست پر رہائی کے بعد امن و امان میں خلل نہ ڈالنے سے متعلق تحریری ضمانت طلب کرلی۔

خادم حسین رضوی کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے دوران 23 نومبر 2018 کوحفاظتی تحویل میں لیا تھا۔

اس کریک ڈاؤن کا آغاز آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف تحریک لبیک کی جانب سے مظاہرے دوبارہ شروع کرنے کے اعلان کے بعد کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: خادم حسین رضوی کے جوڈیشل ریمانڈ میں ایک مرتبہ پھر توسیع

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ٹی ایل پی کے سربراہ اور ریاست کے وکیلوں کو ضمانت کی درخواست پر 11 اپریل کو دلائل دینے کے لیے پیش ہونے کا حکم دیا۔

سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر حافظ الرحمٰن عدالت میں خادم حسین رضوی کی جانب سے وکیل کے طور پر پیش ہوئے۔

انہوں نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ خادم حسین رضوی رہائی کے بعد امن و امان کی صورتحال میں خلل نہیں ڈالیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’خادم حسین رضوی بے گناہ ہیں لیکن پھر بھی جیل میں موجود ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: خادم حسین، پیر افضل کے دھرنے، تقاریر لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ خادم حسین رضوی کی ضمانت منظور کی جائے جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ’ کیا گارنٹی ہے کہ وہ آئندہ امن و امان میں خلل نہیں ڈالیں گے‘۔

عدالت نے خادم حسین رضوی سے تحریری ضمانت طلب کرتے ہوئے سماعت کو ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال توہین مذہب کے مقدمے میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو رہا کیے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف تحریک لبیک پاکستان کے پرتشدد مظاہروں کے دوران املاک کو نقصان اور توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔

جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا گیا تھا، اس دوران خادم حسین رضوی کو 23 نومبر 2018 کو 30 روزہ حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا اور بعد ازاں انسداد دہشت گردی عدالت نے رواں سال جنوری میں انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔