عدلیہ نے کسی معاملے میں سیاسی مداخلت نہیں کی، سابق چیف جسٹس
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ایک مرتبہ پھر دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں حدود سے تجاوز نہیں کیا اور تمام اقدامات اور فیصلے قانون کے دائرے میں رہ کر کیے۔
جرمنی کے نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو اردو نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا انٹرویو کیا جس میں ان سے سوال کیا گیا کہ آپ بطور چیف جسٹس ریاستی معاملات میں عدالتی مداخلت کا سہارا کیوں لیتے تھے؟
جس پر سابق چیف جسٹس نے جواب دیا کہ میں اپنے اقدامات کو لازمی طور پر درست قرار دوں گا، ہمارے ہاں 28 بنیادی حقوق ہیں اور اس کا آغاز ہوتا ہے زندگی کے حق سے اور اگر اس کے معنی میں جائیں تو تمام حقوق اس سے ہی منسلک ہیں۔
مزید پڑھیں: ’میں پاکستان میں جوڈیشل ایکٹیو اِزم کا خالق‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 'میں نے بہت سے معاملات کا نوٹس لیا اور یہ طویل فہرست ہے، جس میں تعلیم کا حق، صحت کا حق، ڈیم کا معاملہ، امتیازی سلوک جو جیل میں روا رکھا جارہا تھا اور اس کے علاوہ دیگر معاملات ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جن معاملات میں نوٹس لیا، ان کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے کسی بھی معاملے میں سیاسی مداخلت نہیں کی۔
سابق چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اگر انہوں نے بحیثیت چیف جسٹس کوئی ایسا کام کیا ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ اختیارات سے تجاوز تھا تو وہ سامنے لائیں، 'میں اس پر وضاحت دینے کے لیے تیار ہوں'۔
سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد میں جوابدہ نہیں ہوں لیکن اس کے باجود میں لوگوں کی تسلی کے لیے ایسا کرنے کو تیار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جج کے 2 مختلف قسم کے نکتہ نظر ہوتے ہیں جن میں ایک 'جوڈیشل ریسٹرین' ہے جبکہ دوسرا 'جوڈیشل ایکٹوزم' ہے اور دونوں ہی قابل عمل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: میرے جانے کے بعد ڈیم تحریک کو بند نہ ہونے دیا جائے، چیف جسٹس
انہوں نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل ریسٹرین سے مراد ہے کہ جج کسی بھی معاملے میں ریسٹرین (روکنے) کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کام ایگزیکٹو کو کرنا چاہیے کیوں کہ یہ اس کے اختیار میں آتا ہے، انہوں نے کہا کہ دوسری صورت میں جب انتظامی فقدان ہو تو کیا بنیادی حقوق پر عمل درآمد کرنے کے عمل کو چھوڑ دینا چاہیے؟
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک وجہ تھی جس کے باعث جوڈیشل ایکٹوزم کے نقطہ نظر پر عمل کیا گیا اور ساتھ یہ واضح کیا کہ انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا۔
میزبان نے ان سے سوال کیا کہ ڈیم فنڈز میں سے آگاہی مہم پر مزید کتنی رقم خرچ ہوگی؟ جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے قوانین اور میڈیا لائسنس کے حصول کے حوالے سے موجود ضابطے میں یہ چیز موجود ہے کہ عوام کی آگاہی کے لیے دیئے جانے والے پیغامات (پبلک سروس میسج) کے لیے نشریاتی اداروں کو مخصوص وقت اور اخبارات کو مخصوص جگہ دینی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ ماہ قبل بھی اس حوالے سے لوگوں نے سوالات اٹھائے تھے کہ اشتہارات پر خطیر رقم خرچ کی جارہی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ کے ڈیم کی تعمیر سے متعلق عمل درآمد بینچ نے اور پیمرا نے بھی اس کی وضاحت دی تھی کہ یہ پبلک سروس میسج ہے جو اس سے پہلے نہیں دیا جارہا تھا جبکہ اس حوالے سے رقم خرچ نہیں کی جارہی۔
مزید پڑھیں: میں نے ملک میں حقیقی جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد رکھی، چیف جسٹس
سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے مزید سوال کیا گیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانے میں عدلیہ کے کردار پر کی جانے والی تنقید کا کیا جواب دیں گے؟ جس پر انہوں نے نواز شریف کا نام لیے بغیر کہا کہ عدلیہ نے سیاسی معاملات میں بالکل بھی مداخلت نہیں کی، عدالت نے جو کچھ کیا قانون کے دائرے میں رہ کر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کو تمام سوالات کا جواب مذکورہ فیصلے میں مل جائے گا۔