فریال تالپور پیشی کے بعد عدالت سے باہر جارہی ہیں۔ فوٹو:ڈان نیوز
دونوں ملزمان نے احتساب عدالت کے سامنے بھی درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ وہ اپنے دفاع میں وکیل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
اس موقع پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں نامزد ملزمان کی تعداد 30 تک پہنچ چکی ہے جس میں سے 8 ملزمان عدالت میں پیش ہوئے جبکہ زیِر حراست 6 ملزمان کو نیب نے پیش کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 16 ملزمان غیر حاضر ہیں جس میں سے 3 کے پاس عبوری ضمانت موجود ہے اور انہوں نے آج ہونے والی سماعت کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی ذاتی درخواستیں جمع کروائی تھیں۔
مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: احتساب عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپور کو طلب کرلیا
جس پر عدالت نے آج (8 اپریل) کی سماعت سے غیر حاضر ملزمان کو 12 اپریل کو طلب کرلیا۔
سماعت میں ملزمان نے ایف آئی اے کے تفتیشی افسر محمد علی ابڑو کی موجودگی پر اعتراض کیا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے ان کا دفاع کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وہ یہاں استغاثہ کی معاونت کے لیے موجود ہیں۔
قبل ازیں سماعت میں عدالت نے ملزمان کی حاضری درج کر کے وکلا کو ریفرنس کی نقول فراہم کیں جس کے بعد مزید سماعت 16 اپریل تک کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔
15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی اور ساتھ ہی آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور و دیگر ملزمان کی ضمانتیں واپس لیتے ہوئے زر ضمانت خارج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور آج احتساب عدالت باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا۔
احتساب عدالت کے رجسڑرار نے بینکنگ کورٹ سے منتقل کئے جانے والے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد اسے احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کی عدالت میں منتقل کیا تھا۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی 10 اپریل تک عبوری ضمانت منظور کی تھی۔
سیکیورٹی ہائی الرٹ
سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی پیشی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور اس سلسلے میں ایک ہزار 650 اہلکاروں کو جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف میں تعینات کیا گیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی نیب میں پیشی کے موقع پر کارکنان کی پولیس اہلکاروں سے جھڑپ ہوئی تھی جس کے بعد پی پی پی کے 70 کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کر کے 20 کارکنان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی سے اتحاد کیلئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر دباؤ بڑھنے لگا
چنانچہ آج احتساب عدالت میں پہلی پیشی کو مدِنظر رکھتے ہوئے وفاقی دارالحکومت کی مجموعی سیکیورٹی بھی ہائی الرٹ رہی۔
دوسری جانب پولیس نے احتساب عدالت میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والی پی پی پی کی 2 کارکنان کو گرفتار بھی کرلیا۔
سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کے سبب وکلا کو احتساب عدالت پہنچنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور اس سلسلے میں فاروق ایچ نائیک نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں بتایا کہ احتساب عدالت سے ملحق تمام سڑکیں بند ہیں۔
کیس کی منتقلی غیر آئینی ہے
سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی پی رہنما لطیف کھوسہ نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی خودمختاری آئین کی روح ہے اور جرائم کا معاملہ صوبائی نوعیت کا ہوتا ہے اس لیے ہماری نظر میں سماعت کی اسلام آباد منتقلی غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔
پارٹی رہنما قمر الزماں کائرہ کا کہنا تھا کہ ’آج پہلی سماعت تھی جس میں عدالت نے نیب پر برہمی کا اظہار کیا کیوں کہ نیب کی کوئی تیاری نہیں تھی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے تفتیش کو ریفرنس تسلیم کرلیا گیا ہے جس پر عدالت نے نیب کو ہدایت کی کہ باقاعدہ ریفرنس فائل کریں جبکہ نیب نے باربار درخواست بھی کی کہ ہمیں وقت دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر نیب خود مختار ہے تو وزیراعظم اور ان کے وزرا کو کیسے خبر ہوتی ہے کہ نیب کس کو گرفتار کرے گا یا کس کے خلاف کارروائی کرے گا۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر رحمٰن ملک نے 2 خواتین کارکنان کی گرفتاری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ خواتین دہشتگرد تھیں جو اتنا جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا۔
کیس کا پس منظر
2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔
یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: جعلی اکاؤنٹس کیس میں زرداری اور فریال کی عبوری ضمانت منظور
اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔
اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔
مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس میں پہلا ریفرنس دائر، 60 کروڑ روپے کا پلاٹ نیب کے حوالے
بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔
تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔
بعدازاں نیب نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سیکریٹری آفتاب میمن، شبیر بمباٹ، حسن میمن اور جبار میمن کو گرفتار کر کے 14 روزہ ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا، ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد ان ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے نیب کے سامنے بیانات قلمبند کرادیے
اس سلسلے میں 20 مارچ کو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پارک لین اسٹیٹ کرپشن کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب کے سامنے پیش ہوکر اپنے بیانات قلم بند کرائے تھے۔