علاج کے دوسرے مرحلے کے بارے میں بات کرنے سے قبل عمران چپ ہوئے، گہری سانس لی، اور بات کا سلسلہ جاری کیا۔ ’میں بہت سے کام نہیں کرپاتا تھا۔ میں چائے کا کپ نہیں اٹھا پاتا تھا یہاں تک کہ میرے لیے صبح اپنا منہ دھونا بھی ممکن نہ ہوپاتا۔ کچھ ایسی تھی میری صورتحال۔'
’لیکن آہستہ آہستہ میں نے محسوس کیا کہ جیسے زندگی ایک بار پھر میرے اندر سرائیت کر رہی ہے۔ علاج کے دوسرے سے تیسرے مرحلے کے بعد قریب 6 سے 7 ماہ قبل ڈاکٹر نے کہا کہ ’ایک ہفتے کے لیے آرام کریں، پھر چلنا، دوڑنا اور اپنی کرکٹ کھیلنا شروع کردیں۔‘ میں نے کہا ٹھیک ہے۔
اس ایک ہفتے کے بعد عمران دوبارہ میدان میں لوٹے۔ ’میں نے دھیرے دھیرے چلنا، دوڑانا شروع کیا اور میں نے بلے کو اپنے ہاتھوں میں تھامنا شروع کیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔‘ عمران کی آواز میں اب جوش و ولولہ اتر آیا ہے اور بات کرتے وقت ان کا چہرہ کھلا کھلا نظر آتا ہے۔
’میں نے خود کو چٹکی کاٹ کر اپنے آپ کو اس حقیقت کا یقین دلایا۔ ہاں یہ سب حقیقت ہے۔ ایک شخص جو چائے کا کپ یا پانی کی بوتل اٹھانے سے قاصر تھا وہ اپنی پوری طاقت اور جسمانی قوت کے ساتھ دوبارہ کرکٹ کھیلنے کی ابتدا کرنے کے لیے لوٹا تھا، اور بھی اس طرح اچانک۔ دن کے اختتام پر میں نے رب کائنات کا شکر ادا کیا۔ میرے لیے تو اس سب کا تصور بھی محال تھا۔‘ اس کے علاوہ انہوں نے شاہد آفریدی فاؤنڈیشن، ہیومن باڈی اسکین ڈائیگناسٹک سینٹر اور پی سی بی کی فراہم کردہ مدد پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
’آپ اسے ٹھیک ہونے کا عمل کہہ سکتے ہیں، جوڑوں کے درمیان فاصلہ تھا کہ جسے بھر دیا گیا ہے، اس بھرائی کے بعد ہی وہ جوڑ مضبوط ہوپاتے ہیں۔‘
تشخیص نے عمران کو اپنی روٹین بھی بہتر کرنے پر مجبور کیا جس میں زیادہ جسمانی حرکت والی سرگرمیاں شامل ہوں۔
’میں گھر کے کام کاج میں اپنے ملازمین کی مدد کرتا اور بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ میں اپنا زیادہ تر وقت اپنے اہل خانہ، اپنے بچوں کے ساتھ گزارتا، دن کے اختتام پر میری اہلیہ اور میں خدا سے یہی دعا کرتے کہ میں اس حد تک بستر تک محدود نہ ہوجاوں کہ دوبارہ کبھی اٹھ نہ سکوں۔ اگرچہ حالات ایسے تھے مگر مجھے لگا کہ میری دعائیں قبول ہوگئی تھیں۔ میں نے خدا سے التجا کی کہ میں بستر سے دُور، سرگرم اور تحرک میں ہی رہنا چاہتا ہوں۔‘
ایک معروف کرکٹ کھلاڑی کے ناخوشگوار حالات کو اسی کی زبانی سننا بہت ہی غیر معمولی تجربہ ہے۔ جیسا کہ عمران یہ تسلیم کرتے ہیں کہ، ’مجھے تھوڑی سی بھی جھجھک نہیں ہوتی، مجھے اچھا محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی کہانی لوگوں تک پہنچا سکتا ہوں۔‘
’اگر میری وجہ سے تکلیف کا سامنے کرتے دیگر افراد کو حوصلہ اور مدد مل سکتی ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ آج میں صحتیاب ہوچکا ہوں، اور میں اب اگر اپنے وجود، اپنے پیغام یا رائے کی وجہ سے کسی دوسرے کی مدد کرسکا یا اسے ڈاکٹرز بھی تجویز کرسکا تو میں سمجھوں گا کہ میں نے نیک کام کیا۔ اگر کسی شخص کو آرتھرائٹس کی تکلیف کا سامنا ہے تو وہ ضرور مجھ سے رابطہ کرے اور میں ان مریضوں بشمول ایسے لوگ جو زیادہ صاحبِ حیثیت نہیں، ان کے علاج کے لیے اپنے ڈاکٹر سے ذاتی طور پر درخواست کروں گا۔ یہ ایک مہنگا علاج ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ غریبوں کا علاج ہو۔‘
صرف عمران ہی وہ واحد کرکٹر نہیں کہ جنہیں جوڑوں کے مرض کا سامنا رہا ہے۔ امپائر بلی باؤڈن کو بھی جوڑوں کے پتھرانے (rheumatoid arthritis) کی تکلیف تھی جس کی وجہ سے انہیں اپنا کرکٹ کھیلنے کا کیریئر مختصر کرنا پڑا۔ تاہم عمران بطور سابق توانا بلے باز، حسبِ توقع خود کو دوبارہ اٹھانے کے لیے پُرعزم ہیں۔