کراچی بطورِ اے ٹی ایم
کچھ دن پہلے گاڑی میں فرینچ بیچ کی طرف جاتے وقت میں نے سوچا کہ کراچی ہر گزرتے برس کے ساتھ کتنا بدصورت ہوچکا ہے۔ سڑکوں کے ساتھ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر لگا ہے اور ہر طرف زبوں حال گھر نظر آتے ہیں۔
اس مختصر سفر سے قبل ایک ہفتے کے لیے میرا لاہور جانا ہوا تھا اور ان دونوں شہروں کے درمیان پیدا ہوچکے واضح فرق کو دیکھ کر مجھے بار بار جھٹکا سا لگتا۔ کہیں کوئی کوڑا نظر نہیں آیا اور شہر کا پھیلاؤ بھی منصوبندی کے تحت ہوتا دکھائی دیا۔ نئے رِنگ روڈ کی وجہ سے ٹریفک کا بہاؤ پرسکون انداز میں جاری رہتا ہے جبکہ پولیس اہلکار حیران کن طور پر اپنا کام مؤثر انداز میں کرتے نظر آئے۔
مجھے یاد ہے کہ 1960ء کی دہائی کے آخر میں سول سرونٹ بننے کے بعد جب پہلی بار لاہور آنا ہوا تو ہم میں سے جو ساتھی کراچی سے تعلق رکھتے تھے وہ لاہور کو ایک صوبائی قصبے کے طور پر کافی کم تر شہر سمجھتے تھے۔ ہمارے نئے لاہوری دوست کراچی کو اپنے شہر سے کہیں زیادہ آگے اپنی موجوں میں مست میٹروپولس شہر تصور کرتے تھے۔
مگر یہ تب کی بات ہے۔ اب تو ساری کہانی مختلف ہے۔ کراچی میں 1980ء کی دہائی کے وسط سے ایم کیو ایم کے شدت پسند بازو کی شروع کردہ شہری دہشتگردی کراچی کو زوال کی طرف لے گئی۔ کچھ برس قبل نواز شریف کی جانب سے شہر پر قابض ٹھگوں کے خلاف کارروائی کے بعد جا کر موت کا یہ سلسلہ بند ہوا۔
پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان دیرینہ تنازع نے بھکیڑا مزید بدتر کردیا۔ جہاں پیپلزپارٹی سندھ پر حکمرانی کرتی ہے وہیں ایم کیو ایم مقامی حکومت میں کونسلرز کی اکثریت رکھتی ہے۔ تاہم پیپلزپارٹی شہری حکومت کو فنڈز جاری کرنے پر ہچکچاتی ہے جس کا نتیجہ شہر میں جا بجا بکھرے کوڑے کے ڈھیر کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان جماعتوں سے یہ توقع کرنا فضول ہے کہ یہ دونوں کسی سمجھوتے پر پہنچ کر مل کر کام کریں گی اور شہر کراچی کے بدحال عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں ان کے اچھے نتائج نہ آنے پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
چونکہ کراچی پستی کا شکار ہے لہٰذا اب لاہور ملک کے اہم ترین شہر کی حیثیت پر قابض ہوگیا ہے، جو حیثیت کبھی کراچی کو حاصل تھی۔ کراچی سے لاہور جانے پر تو کسی بیرون ملک جانے کا گمان ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پنجاب میں ایک کے بعد دوسری آنے والی حکومت نے لاہور کے خاص علاقوں پر توجہ مرکوز کیے رکھی ہے، اور شہر کے بیش قیمتی ثقافتی ورثے کی حال ہی میں ہونے والی بے حرمتی کسی مجرمانہ اقدام سے کم نہیں۔ مگر مختلف نوعیت کے ترقیاتی کاموں کا سلسلہ آہستہ آہستہ پورے شہر اور پورے صوبے میں پھیلتا گیا ہے۔
شہباز شریف کے خلاف الزامات کی حقیقت کچھ بھی ہو، مگر یہ سچ ہے کہ انہوں نے پنجاب کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں زبردست کردار ادا کیا ہے۔ چند برس قبل سری لنکا میں میری ملاقات برطانیہ کے ایک امدادی ادارے، ڈپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ایڈ کے سربراہ سے ہوئی۔ وہ ان دنوں لاہور میں مقیم تھے، انہوں نے بتایا کہ برطانوی امداد کے بہتر استعمال کے حوالے سے پنجاب پاکستان میں بہترین صوبہ رہا۔
دوسری طرف سندھ میں کلیپٹوکریسی (کرپٹ حکمرانوں پر مبنی حکومت) کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا ہے، وہی کلیپٹوکریسی جو کراچی کے ساتھ اپنے ذاتی اے ٹی ایم جیسا سلوک روا رکھتی ہے۔ جہاں پنجاب کی حکمران اشرافیہ لاہور کی بہتری پر فخر محسوس کرتی ہے وہیں ہماری مقامی و صوبائی حکومتوں نے کراچی کو نوچ نوچ کھایا ہے۔ زمینوں پر قبضہ کرنا کراچی میں عام ہے، اور بہتری کی جانب جو بھی اقدام اٹھایا جاتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی غیرسرکاری تنظیم ہوتی ہے یا پھر وہ کسی کی انفرادی کوشش کا نتیجہ۔