نقطہ نظر

’قصہ ایف 16 ’مار گرانے‘ کا!‘

یقینا یہ سوال کئی لبوں پر ہوگا کہ بھارتی فوج کی ایک اور ناکامی کے بعد کیا بھارتی وزیراعظم اب کچھ اور کرنے کا سوچیں گے؟
لکھاری ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

یہ تو طے ہے کہ میگزین 'فارن پالیسی' کی نمائندہ پینٹاگون لارا سیلیگمن آج کل بھارتی میڈیا کے شدید قوم پرستانہ حلقوں میں کسی بھی طور پر پسندیدہ صحافی تصور نہیں کی جارہی ہوں گی۔

فارن پالیسی ڈاٹ کام میں اپنے مضمون میں انہوں نے امریکی افسران کے ایک بیان کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق ان افسران نے پاک فضائیہ کے فعال ایف 16 طیاروں کو گنا ہے، جس کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی ایف 16 طیارہ رواں سال 27 فروری کو بھارتی فضائیہ کے ہاتھوں تباہ نہیں ہوا تھا۔

14 فروری کو مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والے اور وہیں پر پلے بڑے نوجوان نے پلوامہ میں خودکش حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 40 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس واقعے کی ذمہ داری پاکستان میں موجود جیش محمد پر ڈالتے ہوئے 26 فروری کو پاکستان میں جیش محمد کے مدرسے کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملہ کیا۔

جہاں بھارت کی جانب سے یہ دعوٰی سامنے آیا کہ انہوں نے جیش محمد کے 300 جنگجو کو مار کر بھاری جانی نقصان پہنچایا ہے، وہیں پاکستان نے فوری طور پر اس دعوے کو مسترد کردیا، اور کہا کہ جب پاکستانی طیاروں نے بھارتی فضائیہ کے طیاروں کا پیچھا کیا تو وہ اپنے پے لوڈ گرانے پر مجبور ہوئے جس کے نتیجے میں چند درختوں کو ہی نقصان پہنچا۔

تاہم، مشرقی پڑوسی کی جانب سے کی گئی فضائی حدود اور خودمختاری کی خلاف ورزی پر پاکستان جواب دینے کے لیے پُرعزم نظر آیا اور اگلے ہی دن بھارتی فوج اور انتظامیہ پر ٹارگٹ لاک کیا اور مقبوضہ کشمیر کے غیر آباد علاقے میں فائرنگ کی۔

پاکستان نے یہ واضح کیا کہ بھارتی فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی گئی، بلکہ فضائیہ کے اثاثوں میں سے ’اسٹینڈ آف‘ (دُور سے وار کرنے والے) ہتھیاروں کو استعمال کیا اور اپنی ہی فضائی حدود میں رہتے ہوئے اہداف کو منتخب کیا تاکہ سرحد کی دوسری طرف جانی نقصان نہ ہو۔

اس آپریشن کے دوران ایک یا ممکنہ طور پر 2 بھارتی طیارے لائن آف کنٹرول عبور کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئے جن کا پیچھا کیا گیا اور پاکستانی فضائیہ نے دعوٰی کیا کہ اس نے دونوں بھارتی طیاروں کو مار گرایا ہے۔

مگ 21 بائیسن کی تباہی کی تصدیق پاکستان میں گرنے والے اس کے ملبے کی وجہ سے ہوگئی جبکہ آزاد کشمیر میں خود کو ایجکٹ کرنے والے پائلٹ ہندوستان ایئر فورس کے ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھمان کو حراست میں لیا گیا۔ پاکستانیوں کے مطابق دوسرا طیارہ جو ممکنہ طور پر ایس یو 30 تھا وہ بھارت کی طرف گرا۔

قریب 60 گھنٹوں بعد بھارتی ونگ کمانڈر کو بھارت کے حوالے کردیا گیا۔ بھارتی میڈیا کے چند حلقوں کی جانب سے یہ دعوٰی کیا جانے لگا کہ بھارتی پائلٹ نے خود نشانہ بننے سے قبل پاک فضائیہ کے ایف 16 طیارے کو مار گرایا تھا، لیکن پاکستان نے تحقیر آمیز طور پر اس دعوے کو یکسر مسترد کردیا۔

مگر بھارتی حکام سے زیادہ وہاں کے میڈیا نے مسلسل اس من گھڑت کہانی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ پاکستانی ایف 16 طیارہ یقینی طور پر مار گرایا گیا ہے۔ ایک ٹی وی شو کے میزبان کو اس وقت شرمندگی اٹھانا پڑگئی جب ان کے ایک ماہر نے براہِ راست ٹی وی نشریات پر یہ واضح کیا کہ تباہ شدہ طیارے کے انجن کا ملبہ ایف 16 طیارے کا نہیں ہوسکتا، اور پھر اس کی وجہ بھی بتائی۔

لیکن اس کے باوجود بھی دیگر ٹی وی میزبان اور یہاں تک کہ چند اخبارات بھی اس دعوے کو دہراتے رہے۔ صورتحال یہ تھی کہ بھارتی فضائیہ کے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کے نیچے گرکے تباہ ہونے اور اس میں سوار 6 اہلکاروں کی ہلاکت کے واقعے کو بھی اتنی زیادہ توجہ نہیں دی گئی جتنی کہ اس پر دینی چاہیے تھی۔

حالانکہ ہیلی کاپٹر کی تباہی کا واقعہ بھی 27 فروری کو ہی پیش آیا تھا جب بھارتی اور پاکستانی طیارے فضا میں ایک دوسرے کے خلاف کارروائی کررہے تھے۔ ابتدائی طور پر کہا گیا کہ یہ ہیلی کاپٹر تکنیکی خرابی کی وجہ سے تباہ ہوا، تاہم بعد ازاں تحقیقات سے پتہ چلا کہ ممکن ہے کہ اس ہیلی کاپٹر پر خود بھارتیوں نے غلطی سے میزائل حملہ کرکے مار گرایا ہو، لیکن بھارتی میڈیا میں اس معاملے کو بہت ہی محدود جگہ دی گئی۔

سیلیگمن اپنے مضمون میں کہتی ہیں کہ ممکن ہے کہ ونگ کمانڈر ابھی نندن نے اپنے ہتھیاروں کو پاک فضائیہ کے ایف 16 پر لاک کیا ہو اور ان کا ماننا ہو کہ انہوں نے طیارے پر وار بھی کیا مگر امریکی ’گنتی‘ یہ اب ثابت کرچکی ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔

اب یقینی طور پر یہ سوال کئی لبوں پر ہوگا کہ بھارتی فوج کی ایک اور ناکامی کی خبر کے بعد، کیا بھارتی وزیرِاعظم مودی اب کچھ اور کرنے کا سوچیں گے؟ اس سے پہلے پاکستانی زمین کو ’نشانہ‘ بنانے کے ان کے فیصلے کو انتخابات میں ان کی کامیابی کی امیدیں بڑھانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

جب پلوامہ حملہ ہوا تو اس وقت بی جے پی اور نریندر مودی کے حالات بھلے ہی اچھے نہ ہوں مگر حکمران جماعت سے ہمدردی رکھنے والے بڑے بڑے میڈیا اداروں نے جیش محمد کے خلاف بھارتی فوج کی کارروائی میں ’کامیابی‘ کا جو راگ الاپنا شروع کیا اس نے بلاشبہ پارٹی کی صورتحال کو بہتری کی جانب موڑنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔

غلطی پر غلطی کرنے والی کانگریس جو اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک ساتھ 3 لڑائیاں لڑنے جا رہی ہے، ایک طرف بی جے پی سے، تو دوسری طرف اتر پردیش میں بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی کے اتحاد سے مقابلہ کرے گی، جبکہ تیسری طرف دہلی میں بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے خلاف انتخابی مقابلہ لڑے گی۔ چنانچہ بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے بالاکوٹ حملے اور کانگریس کے غلط فیصلوں کے باعث حکمران جماعت پر دباؤ ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

اب تک ہونے والے تمام سروے یہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں کم مارجن کی انتخابی کامیابی کے باوجود بی جے پی کے لیے حکومت تشکیل دینے کی توقعات روشن ہیں۔ لہٰذا ہم صرف یہ توقع ہی کرسکتے ہیں کہ مودی دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد تمام جارحانہ ارادے ایک طرف رکھ دیں گے۔

ایٹمی ہتھیاروں سے لیس جنوبی ایشیا میں آگے بڑھنے کا طریقہ یہی ہے کہ مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے اور پاکستان اور بھارت کی جانب سے مسئلہ کشمیر اور دہشتگردی کو ایجنڈے کا اہم حصہ بنانے کے ساتھ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بگاڑ کا باعث بننے والے تمام تر معاملات پر لچک کا مظاہرہ دکھایا جائے۔

بھارت کو غربت اور اس سے متعلق دیگر مسائل کا سامنا کرتی اپنی 100 کروڑ سے زائد آبادی کی خاطر یہ سوچنا ہوگا کہ خطے میں امن ہی ایک ایسے ماحول کو یقینی بناتا ہے جہاں حقیقی اور معنی خیز ترقی ممکن ہوپاتی ہے۔

جبکہ بی جے پی کے تعینات کردہ آرمی چیف جنرل بپن راوت نے جس طرح کشمیری عوام کی مرضی کو روندھنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے کشمیریوں میں مزید جارحیت کا رجحان بڑھے گا اور وہ مایوس ہوکر پُرتشدد مزاحمتی اقدامات کریں گے۔

پاکستان کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد میں مدد کرنے کا بہترین طریقہ ان کی سفارتی اور اخلاقی مدد کرنا ہے۔ آج بین الاقوامی ماحول کا تقاضہ ہے کہ اس سے بڑھ کر اگر کچھ کیا گیا تو اس سے معاملہ مزید بگڑے گا اور کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کے قانونی جواز کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔

طبل جنگ بجانے کے بجائے مصالحت کی راہ زیادہ سے زیادہ مفادات کے حصول میں مددگار ہوتی ہے اور یہی وہ واحد راستہ ہے جو آگے لے جاسکتا ہے۔


یہ مضمون 6 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔