پی ایس ایل: ملکی معیشت کی ترقی کا دروازہ؟
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا چوتھا ایڈیشن ختم ہوئے، اگرچہ کافی وقت ہوچکا ہے، اور اس کو لے کر شائقینِ کرکٹ کا جوش ولولہ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتا ہی جارہا ہے۔ پھر اس بار جو سب سے اہم کام ہوا ہے وہ یہ پاکستان میں ایک، 2 یا 3 میچ نہیں، بلکہ پورے 8 میچوں کا انعقاد ہوا ہے۔ اس زبردست اقدام کو شائقین کرکٹ نے بھی خوب سراہا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں ہونے والا ہر ایک میچ ’ہاؤس فل‘ رہا۔
دبئی کے میدان سے کہیں زیادہ جوش اور جنون کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں نظر آرہا تھا، ظاہر ہے یہ جذبہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ یہاں کے عوام کرکٹ کی آمد کے ایک عرصے سے شدت منتظر جو تھے۔
پی ایس ایل کے 34 میں سے 8 میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے گئے۔ کراچی کے میدان میں بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کا سیلاب تو تھا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں، حکمران جماعت کے نمائندوں، کاروباری حضرات، سابق کرکٹرز اور فنکاروں پر بھی کرکٹ جنون سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں تقریباً 34 ہزار افراد کی گنجائش موجود ہے، یقین جانیے اگر اس میدان میں 50 ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی تو بھی کم پڑتی۔ یہ بات جذبات میں نہیں، بلکہ حقائق کی بنیاد پر کررہا ہوں۔ جیسے ہی یہاں ہونے والے میچوں کی ٹکٹوں کی فروخت کا سلسلہ شروع ہوا، ویسے ہی ٹکٹوں کی بڑی تعداد پہلے ہی دن فروخت ہوگئیں، لیکن اس کے باوجود بھی ٹکٹ خریدنے کے خواہشمند کسی بھی طور پر کم نہیں ہوئے تھے۔