نقطہ نظر

آن لائن آزادی

آن لائن مواد کی ریگولیشن کے حوالے سے حکومت کی جانب سے پیش کردہ طریقہ کار ٹھیک کیوں نہیں؟
لکھاری انسانی حقوق کے وکیل اور اسلام آباد میں لا اینڈ پالیسی چیمبرز سے وابستہ ہیں۔

سوشل میڈیا نیٹ ورک ویب سائٹس کی وجہ سے جعلی خبروں، آن لائن ہتک آمیز زبان اور سائبر بُلنگ کو فروغ ملا ہے۔ ان تمام خرابیوں کی روک تھام کے لیے عالمی سطح پر سوشل میڈیا نیٹ ورک ویب سائٹس کو ریاستی ریگولیشن میں لانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ قانونی اعتبار سے، آزادی اظہار کے ریاستی ریگولیشن کے ظاہر کردہ طریقوں کو دو ماڈلز میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا، قبل از وقت ضابطہ (Prior Restraint) اور دوسرا سزا مابعد (subsequent punishment).

قبل از وقت ضابطہ ماڈل میں ایک ایسا مزاحم نظام اختیار کیا جاتا ہے جس کے تحت ریاست غیر قانونی اور سماج کے لیے غیر محفوظ تصور کی جانے والی کسی بات کو بولنے یا چھپنے سے قبل ہی روک دیا جاتا ہے۔ ریاست کی جانب سے نیوز اور میڈیا اداروں کے لیے لائسنسنگ کے بااختیار اداروں اور مواد پر نگرانی کے نظام کے قیام، ضوابطی قوانین (Procedural laws)، و دیگر اقدامات کی مدد سے ایسا کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ سزا مابعد کا ماڈل قانون کے نظریہ مزاحم کے گرد گھومتا ہے، جس میں ریاست غیر قانونی اظہار رائے پر سزائیں اور دیگر جرمانے عائد کرتی ہے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے اظہار کی نوعیت کا عدالتی سطح پر تعین کرنے کے بعد سزا دی جاتی ہے۔ اس ماڈل کا مقصد فوجداری اور/یا سول سزاؤں کے ممکنہ نتائج کے ذریعے لوگوں کو اظہار رائے کا غلط استعمال کرنے سے باز رکھنا ہے۔

کئی ممالک سمجھتے ہیں کہ قبل از وقت ضابطہ ماڈل بہت ہی زیادہ سخت اور جابرانہ ہے لہٰذا اشد ضرورت کے تحت شاذونادر ہی استعمال کرنا چاہیے۔ ’ساؤتھ ایسٹرن پروموشنز‘ کے مقدمے کو ہی لیجیے جس پر امریکی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ، ’ایک آزاد معاشرے میں تمام افراد کا بے وجہ گلا گھوٹنے سے اچھا ہے کہ اظہار رائے کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قانون توڑنے کے بعد سزا دی جائے۔‘

پاکستان میں وفاقی حکومت نے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پمرا) کے نام سے تمام ریگولیٹری اداروں کو ایک ادارے میں ضم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ دیگر کئی کرداروں اور کاموں میں سوشل میڈیا پر موجود آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرنے کا کام بھی پمرا کے ذمے ہوگا، کیونکہ حکومت کا ماننا ہے کہ آن لائن صحافت بذریعہ سوشل میڈیا ٹی وی اور پرنٹ صحافت پر سبقت حاصل کر رہی ہے۔ تاہم حکومت کا پمرا کے ذریعے سوشل میڈیا پر موجود مواد کی ریگولیٹری کا مجوزہ طریقہ کار موجودہ پیمرا آرڈینینس میں وضح اسی ’قبل از وقت ضابطہ‘ کے طرز کا ہے۔

پمرا کا مقصد سوشل میڈیا صحافیوں کو لائسنس جاری کرنا ہوگا، جس کے بغیر کوئی بھی اپنے میڈیا چینلز پر عوامی نوعیت کی کوئی خبر، رائے اور دیگر مواد عوامی سطح پر شائع کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔ کئی اسٹیک ہولڈرز پہلے ہی اس طریقہ کار پر خدشات کا اظہار کرچکے ہیں، ان کے مطابق اس کا نہ صرف اطلاق ناممکن ہے بلکہ یہ ریگولیشن سے زیادہ سینسرشپ کی ایک ڈھکی چھپی کوشش کے برابر ہے۔

وقافی حکومت کا یہ نکتہ نظر دو اہم وجوہات کی بنا پر قابل تنقید ہے۔ پہلی، قبل از وقت ضابطے کا ماڈل سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر آزادی اظہار رائے کو ریگولیٹ کرنے کا ایک فرسودہ سا طریقہ کار ہے۔ میڈیا میٹرس فار ڈیموکریسیس سے وابستہ ایڈووکیٹ سلویٰ رانا کہتے ہیں کہ، ’سوشل میڈیا پر موجود افراد کو لائسنس کا اجرا ایک قطعی طور پر ناقابل عمل ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ شہری صحافت (citizen journalism) کے سائے تلے عوام میں سے کوئی بھی فرد کسی بھی وقت آن بلاگز، فورمز، نیٹ ورکس اور ویب سائٹس استعمال کرسکتا ہے۔ سستے داموں پر ملنے والے اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ سہولت کی وجہ سے لاکھوں پاکستانی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ ہر ایک صارف ایک شہری صحافی کا کردار بھی ادا کرسکتا ہے لہٰذا حکومت کے لیے ہر ایک کی رجسٹریشن کرنا قطعی طور پر ناممکن اور ناقابل عمل کام ہے۔‘

حکومت کی جانب سے مجوزہ پمرا کے ذریعے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قبل از وقت ضابطے کے اقدامات کی حوصلہ شکنی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لائسنس کے اجرا اور سینسرشپ کا نظام جب کسی قسم کے عدالتی عمل دخل کے بغیر انتظامی افسران کے ذریعے چلایا جائے تو یہ ریاستی جبر کے لیے مزید ایک اور اوزار سا بن جائے گا اور بالآخر پاکستان کے آن لائن ابلاغی ذرائع پر اظہار آزادی کا راستہ مکمل طور پر بند ہوجائے گا۔

اگر اظہار رائے کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے تو اسے ایگزیکیٹو فیصلوں کے بجائے عدالتی راستے کے تحت کیا جائے۔ اس کے علاوہ اگر کسی شخص پر اظہار آزادی کے حق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا جاتا ہے تو اسے یہ ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے کہ انہوں نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی بات لکھی یا کہی ہے۔ ماضی میں سپریم کورٹ کچھ یوں فرما چکی ہے کہ، اظہار آزادی میں عوامی رائے کے ذرائع سے معلومات کے حصول کا حق بھی شامل ہے جبکہ دوسری طرف پریس کی آزادی کا انحصار معلومات کی وسیع نشرو اشاعت کے تصور پر ہے۔ اس قسم کی نشرو اشاعت پر ضابطوں کو ٹھیک نہیں سمجھا جاسکتا۔

پاکستانی کے انٹرنیٹ صارفین کی آوازیں دبانے کے طریقے تلاش کرنے کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ وہ (ایف آئی اے اور عدالتوں جیسے) اداروں کی صلاحیت بڑھانے پر فنڈ فراہم کرے جو کہ غیر قانونی آن لائن زبان کا استعمال کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے ذمہ دار ہیں تاکہ معاملہ فہمی کے ساتھ ساری صورتحال کا جائزہ لیا جائے اور آزادی کا غلط استعمال کرنے والوں کو سزا دی جائے۔ اسی طرح، جعلی خبروں کا مقابلہ عوامی معلوماتی مہمات کے ذریعے کیا جائے تاکہ عوام میں ان کے آن لائن مواد کے ذرائع کے حوالے سے فیکٹ چیکنگ (حقیقت کی جانچ پڑتال) کی ضرورت کا شعور بیدار کیا جائے۔ اس قسم کے اقدامات سے ہمارے آن لائن ابلاغی ذرائع یقینی طور پر محفوظ ہوں گے بلکہ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اس طرح یہ ذرائع آزاد بھی رہیں گے۔

یہ مضمون 3 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

عمر عمران ملک

لکھاری انسانی حقوق کے وکیل اور اسلام آباد میں لا اینڈ پالیسی چیمبرز سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔