تحریک انصاف کی طاقتور حکومت نتائج کیوں نہیں دے پارہی؟
گزشتہ برس، جب یومِ آزادی منایا جارہا تھا تو یہ موقع نہ صرف ملک کے عوام کے لیے اہم تھا بلکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنوں کے لیے بھی باعث جشن تھا، کیونکہ ان کی پارٹی عام انتخابات میں بڑی جماعت کے طور پر سامنے آچکی تھی۔ صرف رہنما اور کارکن ہی نہیں، بلکہ وہ تمام لوگ بھی بہت زیادہ خوش تھے، جو کہتے تھے کہ عمران خان کو بھی ایک موقع ضرور ملنا چاہیئے!
عمران خان نے وزیرِاعظم بننے سے پہلے ملک کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا اور مرحلہ وار تحریک شروع کی۔ اپنی اس تحریک میں انہوں نے مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور جے یو آئی (ف) کو شدید ہدف تنقید بنایا۔ پھر اس پورے معاملے میں میڈیا اور ریاست کے اہم ادارے خان صاحب کے ساتھ کھڑے رہے، نتیجے میں انہوں نے وہ منزل حاصل کرلی، جس کے لیے 22 سال پہلے انہوں نے جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک کامیاب کرکٹر ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ انتخابی مہم کے دوران ان کا نعرہ تھا کہ وہ پاکستان سے لوٹی گئی 200 ارب ڈالر کی رقم کو سوئیٹزر لینڈ سے واپس لے آئیں گے، ملک کے بڑے چوروں کو گرفتار کرکے ان کا احتساب کریں گے، بدعنوانی کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا کیونکہ معاشرے اس وقت تباہ ہوجاتے ہیں جب ان میں انصاف نہ رہے۔ وہ کہتے تھے کہ جب بھی اس طرح کی سماجی بیماریاں ختم ہوں گی تو پاکستان دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوشحال ملک بن جائے گا۔
عام انتخابات سے پہلے یہ تاثر بہت حد تک واضح ہوچکا تھا کہ 2018ء میں حکومت تحریک انصاف کو مل رہی ہے، کیونکہ نواز شریف نااہل ہوچکے تھے اور ان کی جماعت حکومت میں ہونے کے باوجود شدید دباؤ میں تھی۔ خود تحریک انصاف کے لیڈران بار بار یہ دعوٰی کررہے تھے کہ وہ حکومت بنانے جارہے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد کیا کچھ کرنا ہے، اس حوالے سے ہوم ورک مکمل ہوچکا ہے۔
اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت مخالف تحریک چلانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ تحریک انصاف سمجھتی تھی کہ گزشتہ حکومتوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے، معیشت تباہ کردی گئی ہے۔ لیکن حکومت ملنے کے بعد جس طرح حکومت وزرا کے ہاتھ پیر پھولے اسے دیکھ کر شدید حیرانی ہوئی۔ معیشت کے حوالے سے کہا جانے لگا کہ یہ تو تباہ حال ہے جسے سنبھالنے میں وقت لگے گا، لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ راز ان پر حکومت میں آنے کے بعد کھلا؟ کیا حکومت میں آنے سے پہلے وہ یہ سوچ رہے تھے کہ سب بہتر ہے، اور انہیں معیشت کے میدان میں اتنی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا؟ یہ تو دھوکے والی بات ہوئی نا۔ آپ ایک طرف لوگوں کو ووٹ کے حصول کے لیے ڈراتے ہیں کہ سب تباہ ہے، لیکن اس کے لیے کچھ تیاری بھی نہیں کرتے۔
خیر عمران خان نے وزیرِاعظم بننے کے بعد وہ کام کرنے شروع کیے، جن کی توقع ان کے کارکنان کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیرِاعظم ہاؤس کو ایک اعلیٰ قسم کی یونیورسٹی میں تبدیل کریں گے۔ اگرچہ یہ اعلان تو ہوچکا، مگر اب بھی اس حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاسکا۔
پھر وزیراعظم ہاؤس کی قیمتی گاڑیاں اور اعلیٰ نسل کی بھینسیں نیلام کردی گئیں، اور بتایا گیا کہ اس سے معیشت کو کس قدر فائدہ ہوگا۔ اسی طرح وزیرِاعظم ہاؤس اور ایوان صدر سمیت اہم حکومتی اداروں میں شاہانہ کھانے کی روایت کو ختم کرکے اس کی جگہ پانی یا اگر زیادہ ہی دریا دلی کرنی ہو تو چائے اور چند بسکٹ مہمانوں کی تواضح کے لیے رکھے جانے لگے۔ سرکاری سطح پر تحفے تحائف کے کلچر پر پابندی عائد کردی گئی اور اس ملک کے لوگوں کو پہلی بار پتہ چلا کہ ہیلی کاپٹر کا فی کلومیٹر خرچہ اب صرف 55 روپے ہوتا ہے۔
عام آدمی کے لیے یہ تمام خبریں باعث تسکین تھیں اور انہیں لگا کہ اب ان کے حالات بدلنے والے ہیں۔ خاص کر اس ملک کے ان صحافیوں کو تو اس بات پر حد درجہ یقین تھا جنہوں نے نہ دن دیکھا نہ رات، دھرنے ہوں یا بنی گالا، کڑاکے کی سردی ہو یا جھلسا دینے والی گرمی، ہر طرح کی بھوک پیاس برداشت کرکے وہ تحریک انصاف کی کوریج کرتے کرتے اس حد تک چلے گئے تھے کہ اگر کبھی انہیں دوسری جماعت کی کوریج کے لیے بھیجا جاتا تو انہیں احساس ہوتا کہ وہ تو تحریک انصاف کے کارکن بن چکے ہیں۔
عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@