رپورٹ میں کہا گیا کہ منصوبے کے معاملات میں مشکوکیت پائی گئی، حد سے زیادہ قیمتوں والی اشیا کی مقدار میں اضافہ کیا گیا جبکہ جن کی قیمت نہ ہونے کے برابر تھی انہیں خارج ہی کردیا گیا جس سے عوامی خزانے کو نقصان پہنچا۔
انسپیکشن ٹیم نے مذکورہ رپورٹ 30 جنوری کوصوبائی حکومت کے سامنے پیش کی تھی جس میں ناقص ڈیزائن اور کام میں غفلت برتنے سے حکومت کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی تجاویز دی گئیں تھیں۔
خیال رہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ بی آر ٹی منصوبے تاخیر اور مسائل کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے انکوائری کروائیں گے لیکن عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اب تک اس حوالے سے باضابطہ احکامات موصول نہیں ہوئے۔
تاہم صوبائی حکومت نے 2 اپریل کو صوبائی سیکریٹری ٹرانسپورٹ اور پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی، جس کی سربراہی میں منصوبہ بن رہا ہے، کے ڈائریکٹر جنرل کو ان کے عہدوں سے برطرف کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: خراب منصوبہ بندی کس طرح پشاور کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے؟
اس سے قبل قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایشین بینک کے فنڈز سے بننے والے 67 ارب 80 کروڑ روپے کے اس ماس ٹرانزٹ نظام پر اپنی ابتدائی رپورٹ پیش کی تھی جسے پشاور ہائی کورٹ نے منصوبے میں مزید تاخیر سے بچنے کے لیے سر بہ مہر کردیا تھا۔
اس منصوبے کی متعدد افتتاحی تاریخوں کا اعلان ہوچکا ہے لیکن اب تک اس کی تکمیل نہ ہونا حکمراں جماعت تحریک انصاف کے لیے ہزیمت کا سبب بن چکا ہے۔
بی آر ٹی منصوبے پر تعمیراتی کام کا آغاز اکتوبر 2017 میں ہوا تھا کہ جسے 2018 کے انتخابات سے قبل 6 ماہ میں مکمل ہونا تھا لیکن اس میں تاخیر کے سبب پشاور ہائی کورٹ نے گزشتہ برس جولائی میں نیب کو اس کی مشکوکیت کے حوالے سے تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ بی آر ٹی کے روٹ کے حوالے سے 11 رکاوٹوں کی نشاندہی ہوئی ہے جن کے حل کے لیے کمیٹی بنادی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: نیب کو متنازع پشاور بس منصوبے کی تحقیقات کا حکم
بی آر ٹی منصوبے کی وجوہات پر سوال اٹھاتے ہوئے صوبائی انسپیکشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس ماس ٹرنزٹ نظام کے آغاز سے قبل حکومت کی جانب سے سڑکیں کشادہ کرنے، یو ٹرنز بنانے، خوبصورتی میں اضافہ، سڑکوں پر ایل ای ڈی لائٹس کی تنصیب اور عمومی ترقیاتی کام کیے گئے تھے جس سے گنجان ٹریفک کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوگیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق سڑکیں کشادہ کرنے اور ان کی خوبصورتی میں اضافے کے منصوبے کے فوراً بعد اسی مقام پر بی آر ٹی منصوبہ شروع کردیا گیا جہاں یہ ترقیاتی کام کیےگئے تھے جس نے تمام کاموں پر پانی پھیر دیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ دونوں منصوبوں کی منصوبہ بندی اور منظوری ایک ہی وقت میں کی گئی اور دونوں منصوبے پر ایک ہی ادارے نے کام کیا۔
یہ بھی پڑھیں: نیب کو متنازع پشاور بس منصوبے کی تحقیقات کا حکم
چنانچہ اس قسم کے اقدام کے پسِ پردہ منطق سے عوام کے پیسے کا ضیاں ہوا جس کا احتساب ہونا اور ذمہ داروں کا تعین کیا جانا چاہیے۔
رپورٹ میں منصوبے کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ڈیزائن میں متعدد مقامات پر پائی جانے والی تکنیکی خامیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے کچھ سرکاری افسران نے ناقص ڈیزائن اور اس میں متواتر تبدیلیوں کا ذمہ دار غیر ملکی کنسلٹنٹ کمپنی کو ٹھہرایا جس کے خدمات ڈیڑھ ارب روپے کے عوض حاصل کی گئیں تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سب سے عجیب بات منصوبے کو 6 ماہ میں مکمل کرنے کا غیر حقیقی دعویٰ تھا۔
مزید پڑھیں: پشاور: خواتین کیلئے مخصوص بس سروس انتظامی لاپروائی کی نذر ہوگئی
گزشتہ صوبائی حکومت نے اس مدت میں منصوبے کی تکمیل کے لیے کنٹریکٹر کو 25 فیصد اضافی رقم بھی انعام کے طور پر دی لیکن یہ اضافی رقم ٹھیکیدار کی جیب میں جانے کے باوجود 1 سال بعد بھی منصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔