دنیا

تھریسا مے ایک مرتبہ پھر بریگزٹ میں ’مختصر تاخیر‘ کی خواہاں

توسیع کا مقصد یہ ہے کہ ہم بروقت اور احسن طریقے سے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلیں، برطانوی وزیراعظم

برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ وہ بریگزٹ معاہدے کو منظور کرانے کے لیے مزید ’مختصر تاخیر‘ کے حصول کے لیے کوشش کریں گی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق تھریسامے نے اپنے وزرا سے 7 گھنٹے پر مشتمل مشاورت کے بعد اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن کو مشترکہ لائحہ عمل کے لیے مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’بریگزٹ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں برطانیہ کے پاس مارشل لا کا آپشن موجود ہے‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں آرٹیکل 50 کے تحت مزید مہلت کی ضرورت ہے‘۔

واضح رہے برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے مارچ 2017 میں آرٹیکل 50 سے دستبرداری کا نوٹس بھیجا تھا۔

جس کے بعد یورپی یونین کے رہنماؤں نے بریگزٹ معاہدے کی حتمی تاریخ یعنی 29 مارچ میں توسیع پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے 12 اپریل کردی تھی۔

تھریسامے نے کہا کہ ’ توسیع کا مقصد یہ ہے کہ ہم بروقت اور احسن طریقے سے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس بحث اور تفریق کو مزید طول نہیں دی جاسکتی‘۔

مزید پڑھیں: بریگزٹ معاہدے پر ووٹ سے قبل برطانوی وزیر نے ’پلان بی‘ پیش کردیا

برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ ’وہ جیریمی کوربن سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں تاکہ متفقہ طور پر منصوبہ تیار کیا جا سکے جس پر دونوں فریقین آمادگی رکھتے ہوں‘۔

یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک میں دو اہم باتوں پر بحث جاری ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر تھریسا مے نے ان پر زور دیا تو وہ ایک ہی معاہدہ کرسکیں گے اور اس سے 2 سے 3 ماہ کی تاخیر ہوگی، جبکہ دوسری یہ کہ اگر تھریسا مے نے یہ قبول کیا کہ دوبارہ کام کرنا ضروری ہے تو اس سے طویل عرصے کی تاخیر ہوگی۔

یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے کو گزشتہ برس نومبر میں بریگزٹ معاہدے پر عمل درآمد میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد پارلیمنٹ کے اندر انہیں معاہدے کو منظور کرانے میں مسلسل شدید مشکلات کا سامنا ہے اور دو مرتبہ بریگزٹ معاہدے کے خلاف بھاری اکثریت سے قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ، برطانوی وزیر اعظم کو بدترین شکست

برطانیہ میں یورپی یونین سے اخراج کے لیے طویل تھکا دینے والے مذاکرات کے بعد جون 2016 میں ریفرنڈم ہوا تھا لیکن معاہدے کی منظوری پارلیمنٹ میں اٹک کر رہ گئی تھی۔