پاکستان

اصغر خان کیس: ایف آئی اے جس راستے پر لےجانا چاہتی اس پر نہیں جائیں گے، سپریم کورٹ

ہم مرحلہ وار اس کیس کو لے کر چلیں گے، ضمنی رپورٹ میں پیسے لینے والوں سے متعلق شواہد یا شکوک سے آگاہ کریں، جسٹس عظمت سعید
|

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اصغر خان کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے ضمنی رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اصغر خان عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت وزارت دفاع کی طرف سے ڈائریکٹر لیگل بریگیڈیئر فلک ناز عدالت میں پیش ہوئے، اس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ ہم نے رپورٹ طلب کی تھی کیا آپ نے جمع کروادی، جس پر بریگیڈیئر فلک ناز نے کہا کہ ہم نے 16 مارچ کو رپورٹ جمع کروا دی تھی۔

جس پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آپ کی رپورٹ ریکارڈ پر موجود نہیں اسے دوبارہ جمع کروائیں، میرا خیال ہے کہ رقم لینے والوں کا پتہ چل جائے گا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا اصغرخان عملدرآمد کیس بند نہ کرنے کا فیصلہ

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ایف آئی اے جس راستے پر لے کر جانا چاہتی ہے، اس راستے پر نہیں جائیں گے، ہم کیس بند کرنے نہیں جارہے۔

اس دوران وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کچھ لوگوں نے اپنے کردار کو تسلیم کیا ہوا ہے، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ہم مرحلہ وار اس کیس کو لے کر چلیں گے اور نظر رکھیں گے اس پر جہاں اسے پہنچانا ہے۔

سماعت کے دوران عدالت نے ایف آئی اے سے ضمنی رپورٹ طلب کی اور کہا بتایا جائے کہ بینک اکاؤنٹس کون چلا رہا تھا اس کی نشاندہی کریں۔

عدالت نے کہ رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کریں کہ کون سا ریکارڈ موجود نہیں، پیسے لینے والوں سے متعلق شواہد یا شکوک سے آگاہ کریں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ضمنی رپورٹ میں بتایا جائے کہ جو ریکارڈ ملا نہیں وہ کس کے پاس ہونا چاہیے، ساتھ ہی رقم لینے سے انکار کرنے والوں کا نام بھی رپورٹ میں شامل کیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے اضغر خان عملدرآمد کیس سے متعلق سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ اس سے قبل : سپریم کورٹ نے اصغر خان عملدرآمد کیس میں ملوث فوجی افسران کے خلاف وزارت دفاع کو 4 ہفتے میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس سے قبل 29 دسمبر 2018 کو وفاقی تحقیقاتی ادارے نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرواتے ہوئے اصغر خان عمل درآمد کیس کی فائل بند کرنے کی درخواست کی تھی۔

تاہم اس پر سپریم کورٹ نے اصغر خان عملدرآمد کیس بند نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایف آئی اے اور سیکریٹری دفاع سے جواب طلب کرلیا۔

ساتھ ہی 11 جنوری کو اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مرحوم ایئر مارشل (ر) اصغر خان کے اہلِ خانہ کی درخواست قبول کرتے ہوئے اس کیس کی کارروائی جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔

اصغر خان کیس — اب تک کیا ہوا!

سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس 1996 میں دائر ہوا، مقدمے کی رو سے اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کی ہدایت پر ایوان صدر میں 1990 کے انتخابات کے لیے الیکشن سیل بنایا گیا، جس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی شامل تھے۔

مقدمے میں کہا گیا تھا کہ 1990 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو شکست دینے کے لیے آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ نے مبینہ طور پر مہران بینک کے یونس حبیب کے ذریعے سیاستدانوں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کیے، جس سے عوام کو شفاف انتخابات اور حق رائے دہی سے محروم رکھ کر حلف کی رو گردانی کی گئی۔

بعد ازاں 16 سال بعد عدالت نے 2012 میں مذکورہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ریٹائر جرنیلوں اسلم بیگ، اسد درانی اور مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب کے خلاف کارروائی کا حکم دیا اور رقم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

اس ضمن میں تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا، 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی جبکہ اسلم بیگ اور اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے، ان کا یہ عمل انفرادی فعل تھا، اداروں کا نہیں۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، ایوان صدر میں کوئی سیل ہے تو فوری بند کیا جائے۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس کیس میں کافی ثبوث جمع کیے گئے، لہٰذا ایف آئی اے فنڈز وصول کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کے لیے مقدمات کی تیاری کرے۔

جس کے بعد سپریم کورٹ کے 2012 کے فیصلے کی روشنی میں ایف آئی اے کی جانب سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی، جس میں سابق ڈائریکٹر جنرل غالب بندیشہ، ڈاکٹر عثمان انور، قدرت اللہ مروت اور نجف مرزا شامل تھے۔

اس تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے اصغر خان کیس کے فیصلے کے تقریباً ایک سال بعد 2013 کے اختتام پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا۔

اپنی تحقیقات کے دوران 2015 تک ایف آئی اے کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ایئر مارشل (ر) اصغر خان، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی، مہران بینک کے مالک یونس حبیب، ایڈووکیٹ یوسف میمن اور معروف صحافی الطاف حسین قریشی کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے۔

اس ضمن میں فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں جو رواں سال 6 مئی کومسترد کر دی گئیں تھیں۔

بعد ازاں 9 جون کو اصغر خان عملدرآمد کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرایا تھا، جس میں انہوں نے 1990 کی انتخابی مہم کے لیے 35 لاکھ روپے لینے کے الزام کو مسترد کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اطلاعات کا اصغر خان کیس کی دوبارہ سماعت کیلئے بینچ کے قیام کا خیرمقدم

انہوں نے کہا ہے کہ1990 کی انتخابی مہم کے لیے اسد درانی یا ان کے کسی نمائندے سے کوئی رقم نہیں لی اور نہ ہی کبھی یونس حبیب سے 35 لاکھ یا 25 لاکھ روپے وصول کیے۔

نواز شریف نے کہا تھا کہ ان الزامات سے متعلق 14 اکتوبر 2015 کو اپنا بیان ایف آئی اے کو ریکارڈ کروا چکا ہوں۔

اس کے علاوہ اصغر خان کیس میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپنی جماعت پر عائد الزامات کے حوالے سے اپنا بیان حلفی جمع کرادیا تھا۔

سراج الحق نے بھی 1990 کے انتخابی مہم کے لیے آئی ایس آئی سے رقم لینے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے بیان حلفی میں کہا تھا کہ جماعت اسلامی 2007 میں رضاکارانہ طور پر عدالتی کارروائی کا حصہ بنی،ہم نے آئی ایس آئی سے کوئی رقم وصول نہیں کی، ہم کسی بھی فورم یا کمیشن میں جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔