پاکستان

منظم غیر معتبر رویہ: پاکستان اور بھارت میں کئی فیس بک اکاؤنٹس بند

جعلی اکاؤنٹس کا ایک نیٹ ورک موجود ہے، ان پیجز کو آزاد ظاہر کیا جاتا تھا، در حقیقت ایسا نہیں ہے، فیس بک

سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بک نے پاکستان اور بھارت میں ’غیرمنظم رویے‘ اور اسپیمنگ کی وجہ سے 712 اکاؤنٹس اور 390 پیجز بند کر دیے۔

سوشل میڈیا کے مقبول پلیٹ فارم فیس بک نے پاکستان اور بھارت میں ’4 علیحدہ، مختلف اور غیر منقطع ‘ نیٹ ورکس ہٹائے جانے سے متعلق تفصیلات شیئر کیں۔

کمپنی نے کہا کہ اس نے ان نیٹ ورکس کی جانب سے بنائے گئے پیجز، اکاؤنٹس اور گروپس منظم غیر معتبر رویے اور اسپیمنگ کے حوالے سے فیس بک کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے بند کیے۔

  • کمپنی نے فیس بک اور انسٹاگرام سے پاکستان میں موجود نیٹ ورک کے 103 پیجز، گروپس اور اکاؤنٹس بند کردیے۔

  • فیس بک نے انڈین نیشنل کانگریس کے آئی ٹی سیل سے وابستہ افراد کے 687 پیجز اور اکاؤنٹس ختم کردیے۔

  • بھارت میں آئی ٹی فرم سِلور ٹچ سے منسلک افراد کے 15 فیس بک پیجز،گروپس اور اکاؤئنٹس ہٹائے گئے۔

  • کمپنی نے بھارت میں 321 پیجز اور اکاؤنٹس ختم کیے گئے جو اسپیمنگ کے خلاف فیس بک قوانین پر عمل نہیں کرتے۔

سماجی روابط کی معروف ویب سائٹ فیس بک نے اعلان کیا کہ اس نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے 103 پیجز، گروپس اور اکاؤنٹس بند کردیے ہیں۔

اس حوالے سے فیس بک نے دعویٰ کیا کہ تمام اکاؤنٹس ’منظم غیر معتبر رویے‘ (coordinated inauthentic behaviour) کی بنیاد پر بند کیے گئے جبکہ کئی اکاؤنٹس کا پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مبینہ ملازمین منسلک ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔

ڈان نے فیس بک کے اس دعوے پر آئی ایس پی آر سے بھی مؤقف کے لیے رابطہ کیا۔

فیس بک کی سائبر سیکیورٹی پالیسی کے سربراہ ناتھانئیل گلائیکر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ آج ہم نے منظم غیر معتبر رویے کی وجہ سے پاکستان سے تعلق رکھنے والے فیس بک اور انسٹا گرام کے 103 پیجز، گروپس اور اکاؤنٹس بند کردیے‘۔

بیان میں مزید بتایا گیا کہ ’ تاہم اس سرگرمی سے وابستہ افراد نے اپنی شناخت چھپانے کی کوشش کی مگر ہماری تحقیق سے معلوم ہوا کہ ان اکاؤنٹس کو چلانے والے آئی ایس پی آر کے ملازم تھے‘۔

تحقیقات کی دوران کسی پیج کی جانب سے شیئر کیا گیا مواد— فوٹو: فیس بک

ناتھانئیل گلائیکر نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ اکاؤنٹس اس لیے ختم کیے گیے کیونکہ جعلی اکاؤنٹس کا ایک نیٹ ورک موجود ہے، جسے وہ اپنی شناخت چھپانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان پیجز کو آزاد ظاہر کیا جاتا تھا جبکہ در حقیقت ایسا نہیں ہے‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ فیس بک اس حوالے سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان سرگرمیوں کو ادارے کی ہدایت پر کیا گیا یا ملازمین بذات خود ایسا کررہے تھے۔

ناتھانئیل گلائیکر نے کہا کہ ’ ان سرگرمیوں میں متعدد ملازمین ملوث تھے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’فیس بک کو ملوث افراد کی شناخت سے متعلق ’مکمل اعتماد‘ ہے۔

’مواد نہیں رویے کا معاملہ ہے‘

ناتھانئیل گلائیکر نے واضح کیا کہ فیس بک نے پوسٹ کیے جانے والے مواد کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے رویے کی وجہ سے اکاؤنٹس ختم کیے۔

تحقیقات سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں موجود مذکورہ نیٹ ورک، فیس بک اور انسٹاگرام کے 24 پیجز، 57 فیس بک اکاؤنٹس، 7 فیس بک گروپ اور 15 انسٹاگرام اکاؤنٹس تک پھیلا ہوا تھا۔

کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ان سرگرمیوں میں ملوث افراد جعلی اکاؤنٹس کو ملٹری فین پیجز، پاکستانی دلچسپی سے متعلق پیجز، کشمیر کمیونٹی پیجز اور نیوز پیجز کے لیے استعمال کرتے تھے‘۔

بیان میں یہ بھی کہنا تھا کہ وہ بھارتی حکومت، سیاسی رہنماؤں اور فوج سے متعلق خبریں بھی پوسٹ کرتے تھے‘۔

فیس بک کی جانب سے ان پیجز کی تفصیلات بھی شیئر کی گئیں:

فالوورز : تقریبا 28 لاکھ افراد نے ان میں سے ایک یا اس سے زائد پیجز کو لائیک کیا ہوا تھا، 4 ہزار 7 سو افراد ان میں سے کم از کم ایک گروپ کا حصہ تھے اور تقریباً ایک ہزار 50 اکاؤنٹس ان انسٹاگرام اکاؤنٹس کو فالو کررہے تھے۔

اشتہارات: فیس بک پر اشتہارات کے لیے امریکی ڈالرز اور پاکستان روپے میں رقم خرچ کی گئی خرچ کی گئی، جس کا تخمینہ 1100امریکی ڈالرز لگایا گیا، پہلا اشتہار مئی 2015 اور حالیہ اشتہار دسمبر 2018 میں چلا۔

فیس بک کی جانب سے ہٹائے جانے والے پیجز میں پاکستان سائبر ڈیفنس، کشمیر نیوز، گلگت بلتستان ٹائمز، کشمیر فار کشمیریز، پینٹرز پلیٹ، پاکستان آرمی-دی بیسٹ شامل تھے۔

ان پیجز کے ناموں سے متعلق تفصیلات اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک کے ڈیجیٹل فرانزک ریسرچ (ڈی ایف آر) لیب کی جانب سے شیئر کی گئیں، جنہوں نے فیس بک کی جانب سے پاکستانی نیٹ کے ہٹائے گئے مواد کا جائزہ لیا تھا۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ناتھانئیل گلائیکر نے نیٹ ورک سے وابستہ افراد کی تعداد نہیں بتائی، نہ ہی انہوں نے ان افراد اور بلاک کیے گیے اکاؤنٹس کے درمیان تعلق کو کسی طرح واضح کیا۔

—فوٹو: ۔بشکریہ فیس بک

ناتھانئیل گلائیکر نے کہا کہ ’سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ہم اس حوالے سے زیادہ نہیں بتاسکتے کہ ہم یہ لنکس کیسے بناتے ہیں کیونکہ مانیٹرنگ ایک جاری رہنے والی سرگرمی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لنک بنانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی ان میں سے جعلی اکاؤنٹ چلا رہا ہے اور اس کے بعد وہ اپنا ذاتی اکاؤنٹ لاگ ان کرتا ہے۔

گلائیکر نے کہا کہ ’ ہم عام طور میں ان سرگرمیوں میں ملوث افراد کو مطلع نہیں کرتے لیکن ہم ان ممالک میں موجود پالیسی سازوں سے رابطے میں ہیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہوں نے پاکستان میں کسی سے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں وزیراعظم آفس اور ’ سوشل میڈیا ایڈوائزر ‘ سے رابطہ کیا تھا‘۔

فیس بک کا کہنا ہے کہ بھارت میں 11 اپریل کو عام انتخابات سے قبل کمپنی نے بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی سے منسلک 687 پیجز اور اکاؤنٹس ’ منظم غیر معتبر رویے‘ کی وجہ سے بند کیے۔

کمپنی نے مزید بتایا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ صارفین جعلی اکاؤنٹس کا استعمال کرتے جبکہ اپنے مواد کی تقسیم اور ان پر مصروفیت میں اضافے کے لیے کئی گروپس کا حصہ بنے۔

—فوٹو: بشکریہ فیس بک

فیس بک نے بتایا کہ ’ ان کی پوسٹس میں مقامی خبریں، سیاسی مخالفین جیسا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر تنقید شامل کی جاتی تھی۔

بیان میں درج ذیل تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’جب اس سرگرمی میں ملوث افراد نے اپنی شناخت چھپانے کی کوشش کی تو ہمارے ریویو سے معلوم ہوا کہ ان اکاؤنٹس اور پیجز کا تعلق انڈین نیشنل کانگریس کے آئی ٹی سیل سے وابستہ افراد سے ہے‘۔

  • فیس بک پر موجودگی: 138 پیجز اور 594 فیس بک اکاؤنٹس

  • فالوورز: تقریباً 2 لاکھ 6 ہزار اکاؤنٹس ان میں سے ایک یا زائد پیجز کو فالو کررہے تھے۔

  • ایڈورٹائزنگ: 39 ہزار امریکی ڈالر کے قریب رقم انڈین روپے میں فیس بک کے اشتہارات پر خرچ کی گئی، پہلا اشتہار اگست 2014 اور حالیہ اشتہار مارچ 2019 میں چلا ۔

فیس بک کی جانب سے شیئر کی گئی 2 پوسٹس میں نریندر مودی کے اقدامات پر تنقید کی گئی تھی جبکہ کانگریس اور اس کے صدر راہول گاندھی کی حمایت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ فیس بک نے بھارت میں فیس بک اور انسٹاگرام پر مزید 15 پیجز،گروپس اور اکاؤنٹس منظم غیر معتبر رویے کی وجہ سے بند کردیے۔

بیان میں کہا گیا کہ ’ پیج ایڈمنز اور اکاؤنٹ صارفین کی ایک مختصر تعداد نے مختلف پیجز پر اپنا مواد شیئر کرنے کے لیے مستند اور جعلی دونوں اکاؤنٹس استعمال کیے‘۔

فیس بک نے کہا کہ انہوں نے مقامی خبروں اور سیاسی واقعات سے متعلق پوسٹس کیں جیسا کہ بھارتی حکومت، انتخابات، بھارتیہ جنتا پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس سمیت سیاسی مخالفین کے مبینہ غلط اقدامات شامل ہیں۔

تاہم ان سرگرمیوں میں ملوث افراد نے اپنی شناخت چھپانے کی کوشش کی، ہماری تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس میں بھارتی آئی ٹی فرم، سِلور ٹچ سے وابستہ صارفین ملوث تھے۔

  • فیس بک اور انسٹاگرام پر موجودگی: ایک پیج، 12 فیس بک اکاؤنٹس، ایک گروپ اور ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ۔

  • فالوورز: تقریباً 26 لاکھ اکاؤنٹس اس پیج کو فالو کررہے تھے، 15 ہزار اکاؤنٹس نے اس گروپ کو جوائن کیا اور 30 ہزار اکاؤنٹس نے انسٹاگرام اکاؤنٹ کوفالو کیا۔

  • ایڈورٹائزنگ: فیس بک پر اشتہار کے لیے 70 ہزار امریکی ڈالر کے برابر رقم بھارتی روپے میں ادا کی گئی، پہلا اشتہار جون 2014 اور حالیہ اشتہار فروری 2019 میں چلا۔

علاوہ ازیں فیس بک نے بتایا کہ کمپنی نے بھارت میں مزید 227 پیجز اور 94 اکاؤنٹس اسپیم اور غلط بیانی کے خلاف پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے پر بند کردیے۔

اس حوالے سے فیس بک کے سائبر سیکیورٹی پالیسی کے سربراہ ناتھانئیل گلائیکر کا کہنا تھا کہ فیس بک پر ہم ہر قسم کی غلط بات سمیت ’منظم غیر معتبر رویے‘ کو ختم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔

منظم غیر معتبر رویہ تب ہوتا ہے جب پیجز کے گروپس یا لوگ اس بارے میں دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں کہ وہ کون ہیں یا وہ کیا کر رہے ہیں۔

— فوٹو: بشکریہ فیس بک ویڈیو

منظم غیر معتبر رویہ فیس بک یا سوشل میڈیا کے لیے منفرد نہیں ہے، دوسروں کو گمراہ کرنے کے لوگ ایک ساتھ صدیوں سے کام کررہے ہیں اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان نیٹ ورکس میں سے ایک کو ان کے مواد کی شیئرنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے گمراہ کن رویے کے باعث ختم کیا گیا۔

یہ پوسٹ شاید خود سے غلط یا ہمارے کمیونٹی معیار کے خلاف نہیں ہوسکتیں، تاہم ہم کسی نیٹ ورک کو اس وقت ہٹاسکتے ہیں جب یہ تاثر ملے کہ وہ دنیا کے ایک حصے سے چلایا جارہا ہے جبکہ حقیقیت میں وہ دوسرے حصے سے چلایا جارہا ہوتا ہے۔

یہ نظریاتی مقاصد یا مالیاتی عزائم کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر اسپیمرز شاید لوگوں کو ایک لنک پر کلک کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ پیج پر وزٹ کرسکیں یا اس کی پوسٹ پڑھ سکیں۔

ہم اس قسم کے رویے کے بعد 2 طریقے اپناتے ہیں، یعنی لوگوں اور ٹیکنالوجی کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہیں۔

پہلے تجربے میں تحقیق کار خود سے (manually) سب سے زیادہ جدید نیٹ ورکس کو تلاش کرتے ہیں اور انہیں ختم کرتے ہیں، یہ ایسا ہے کہ ایک بہت بڑی جگہ پر ایک سوئی تلاش کر رہے ہوں ۔

دوسرا یہ کہ ہم نے ایک ٹیکنالوجی بنائی ہے جو زیادہ عام خطرات کو خودکار طریقے سے تلاش کرتی ہے اور انہیں ہٹاتی ہے، اس کی بہتر مثال یہ ہے کہ ہم روزانہ لاکھوں جعلی اکاؤنٹس کی کوششوں کو خود کار طور پر تلاش کرکے انہیں روکتے ہیں۔

ہمارے لوگ سب سے زیادہ خراب کرداروں کا پتہ لگا کر انہیں روکتے ہیں، ہم جو سیکھتے ہیں اس کی بنیاد پر اپنی ٹیکنالوجی کو بہتر کرتے ہیں اور پھر یہ ٹیکنالوجی کم جدید خطرات کو روکتی ہے، جس سے ہمارے تحقیق کاروں کو زیادہ اہم معاملے پر توجہ دینے میں مدد ملتی ہے۔

ذرائع: فیس بک نیوز روم