دنیا

مقامی انتخاب میں اردوان کو دھچکا، انقرہ میں شکست

ترک صدر رجب طیب اردوان نے میئر اور ڈسٹرکٹ کونسلز کے انتخابات کو ترکی کی بقا کی جنگ قرار دیا تھا۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو مقامی انتخابات میں دھچکا لگا ہے اور ان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کو اپوزیشن کی مرکزی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے دارالحکومت انقرہ میں شکست دے دی جبکہ ملک کے معاشی حب استنبول اور تیسرے بڑے شہر اِزمر میں بھی اس کی شکست کا امکان ہے۔

اردوان اور ان کی جماعت کے لیے ملک کے تین بڑے شہروں میں ممکنہ شکست ایک بڑا دھچکا ہے جہاں ملک میں معاشی ترقی کی بدولت وہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے کامیابیاں حاصل کرتے آرہے تھے۔

مزید پڑھیں: طیب اردوان کا مسلمانوں، عیسائیوں کے درمیان متنازع مقام کو مسجد بنانے کا فیصلہ

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ترک صدر نے میئر اور ڈسٹرکٹ کونسلز کے انتخابات کو ترکی کی بقا کی جنگ قرار دیا تھا لیکن ملک کی گرتی کرنسی اور بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ ساتھ خراب ہوتی معیشت کے سبب یہ انتخابات ان کی جماعت کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔

انقرہ کے میئر کی ہونے والی ووٹنگ میں 99فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار منصور یاوس 50.89فیصد ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کر رہے تھے اور اے کے پی نے 47.06ووٹ حاصل کیے۔

ترکی کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب استنبول میں صورتحال انتہائی دلچسپ ہے اور دونوں ہی امیدوار کامیابی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

ابتدائی نتائج کے مطابق استبنول میں حکمران جماعت کے امیدوار نے 48.51 ووٹ حاصل کیے ہیں لیکن 48.79ووٹ حاصل کرنے والے اپوزیشن کے امیدوار بھی فتح کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: استنبول: مشرق اور مغرب کا حسین سنگم

آخری نتائج کے مطابق استنبول میں اے کے پی کو صرف 4 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل تھی اور حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ وہ ہزاروں بیلٹس پیپرز کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ دونوں بڑے شہروں میں انہیں غلط مانتے ہیں۔

ترکی کے تیسرے بڑے شہر اِزمر میں 99 فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد صدر طیب اردوان کی حریف جماعت نیشنل الائنس کے امیدوار مصطفیٰ تنک سوئیر نے 58 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ترک صدر کی حامی جماعت کے امیدوار نے 38.5 فیصد ووٹ لیے۔

واضح رہے کہ اگر ترک صدر کی جماعت اور ان کی حمایت یافتہ پارٹی استنبول، انقرہ اور اِزمر میں ناکام ہوگئی تو ان تینوں بڑے شہروں میں اپوزیشن اتحاد کے میئر ہوں گے۔

ترک صدر نے شکست کا اعتراف کرلیا، نتائج کے خلاف اپیل کا اعلان

تین بڑے شہروں میں ممکنہ شکست کے باوجود انقرہ میں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اردوان نے انتخابات کو اپنی جماعت کی فتح قرار دیا لیکن انہوں نے اس میں انقرہ کی شکست کا ذکر نہیں کیا۔

غیرمتوقع نتائج سے قطع نظر اردوان اور ان کی اتحادی جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی نے ملک بھر میں 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرلیے ہیں۔

اردوان نے عوام سے خطاب میں کہا کہ اگر کچھ کمی رہ گئی ہے تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اسے ٹھیک کریں، کل صبح سے آغاز کرتے ہوئے ہم دیکھیں گے کہ ہم سے کیا کمی رہ گئی ہے اور اسے ٹھیک کریں گے۔

بعد ازاں انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے طیب اردوان نے بعض شہروں میں اپنی شکست کا اعتراف کیا، انہوں نے کہا کہ جہاں ضرورت ہوئی وہاں ان کی جماعت انتخابی نتائج کے خلاف اپیل کرے گی۔

ترک صدر نے باور کرایا کہ حکمراں نظام کو زیادہ سرگرم بنانے کے لیے وزارتوں اور اداروں میں ضروری اقدامات کیے جائیں گے

بڑے شہروں میں شکست کے باوجود حکمران جماعت مجموعی طور پر کامیاب رہی اور حکمران اتحادی جماعت نے انتخابات میں 51.63 فیصد ووٹ لیے جبکہ اپوزیشن اتحاد نے 37.55فیصد ووٹ لیے۔

یہ 2017 میں ہونے والی آئینی اصلاحات کے بعد ترکی کے پہلے انتخابات تھے جہاں ان اصلاحات کے ذریعے 16سال سے صدر کے عہدے پر موجود اردوان کو مزید وسیع تر اختیارات حاصل ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: رجب طیب اردوان ترکی کے پہلے ایگزیکٹو صدر بن گئے

ملک میں بڑھتی بیروزگاری، ملکی کرنسی کی قدر میں کمی اور مہنگائی کے سبب اردوان کو شدید دباؤ کا سامنا ہے لیکن ان کے حامی ابھی بھی انہیں ترکی کی مشکلات اور درپیش چیلنجز کا واحد حل تصور کرتے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کا ماننا ہے کہ ترکی میں جمہوریت تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہے اور ان کا کہنا ہے خصوصاً 2016 میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے جمہوریت کو شدید خطرات کا سامنا ہے جہاں اس وقت سے اب تک بغاوت میں مبینہ طور ہر ملوث ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

انقرہ میں اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار یاوس نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنی فتح کا دعویٰ کیا اور کہا کہ آج کوئی نہیں ہارا بلکہ انقرہ جیت گیا۔