کاہو جو دڑو: ایک گمنام تہذیبی ورثہ
انسان کی آنکھیں ہمیشہ حُسن کی متلاشی ہوتی ہیں، خوبصورتی کسے نہیں بھاتی، چاہے یہ انسانی شکل میں ہو یا پھر چرند پرند کی پروازوں میں، حتیٰ کہ بے جان عمارتوں کا حُسن بھی انسان کو موہ لیتا ہے۔ مگر جس طرح خوبصورتی ایک سچائی ہے، اسی طرح بدصورتی بھی ایک حقیقت ہے۔
ہم عروج سے پیار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں وہ سدا کے لیے قائم رہے مگر زوال بھی تو ایک عمل کا نام ہے جو ہر کسی پر آنا فطری ہے۔ یہی زوال تہذیبوں پر بھی آتا ہے، حکمرانوں اور شہنشاہوں پر بھی پستی کے خطرے کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے اور ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ سب کچھ خاک میں مل جاتا ہے، سب فنا ہوجاتا ہے۔
میں جب بھی کسی تہذیب کی چُور چُور اور مدفوں ہوتے عمارتی ڈھانچے یا آثار دیکھتا ہوں تو ذہن کئی بار اس زمانے کے عکس ٹٹولنے لگتا ہے جب سب کچھ آباد اور شادمان تھا۔ مگر تاریخ ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی۔ اس کے نشیب و فراز ہر دور کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔
سندھ میں آج بھی کئی ایسے آثارِ قدیمہ موجود ہیں جن پر کبھی عروج کی دیوی مہربان تھی لیکن آج اُن مقامات کی جانب کوئی شاذ و نادر ہی دیکھنے کا کشٹ کرتا ہے۔
میرے سفر کا سلسلہ ان آثاروں کی تلاش میں ہر ماہ جاری رہتا ہے۔ اس بار میرے قدم وہاں آکر رکے جہاں سدھارتھ گوتم بدھ سے وابستہ کئی اشیا موجود تھیں۔ وہی گوتم بدھ جو کبھی محل کا راجا تھا مگر اس نے تمام تر عیش و عشرت کو ترک کردیا اور جنگلوں میں اس سکون کی تلاش میں نکلا جس کی تلاش آج بھی ہر انسان کو ہے۔ اس نے ایک جگہ کہا تھا کہ ’بارش کے بنا کچھ نہیں اُگ سکتا، اس لیے اپنی زندگی میں آنے والے طوفان کو گلے لگانا سیکھو۔‘
میرپورخاص سندھ کے اہم شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ حکمرانوں کا شہر رہا ہے اور یہ خاص اس لیے بھی ہے کہ یہاں کے آم بہت میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں۔ یہاں آموں کی اجناس ملک بھر میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ مگر اس بار میرے لیے آموں سے زیادہ اہم وہ جگہ تھی جو اب اپنے ہی ملبے تلے دب چکی ہے، اور آنے والے وقتوں میں شاید ہمیں وہاں خالی میدان ہی نظر آئے۔
سندھ کی سرزمین پر جس طرح موہن جو دڑو سمیت کئی آثارِ قدیمہ انگریز دور میں دریافت کیے گئے تھے ٹھیک اسی طرح یہ بھی کمپنی بہادر کی ہی مہربانی تھی جنہوں نے کاہو جو دڑو جیسے مقام کو دریافت کرکے دنیا کو یہ بتایا کہ یہ کسی زمانے میں بدھ مت کا ایک اہم ترین مرکز رہا ہے۔