بک ریویو: تکون کی چوتھی جہت
ناولٹ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ فکشن نگار سرکاری، مذہبی اور نسلی نعروں پر مشتمل سطحی جذباتیت اور اپنے تمام کرداروں سے کسی بھی (ظاہری یا چھپے) تعصب کا شکار ہوئے بغیر مکمل انصاف کرنے میں کامیاب رہا۔
ایک (غیر سرکاری) ادیب کا سب سے پہلا سروکار انسان، انسانیت اور اس سے جڑے قیمتی تجربات اور محسوسات سے ہوتا ہے، اگر وہ انہی احساسات کو بیان کرنے میں ڈنڈی مار جائے تو اپنے عظیم وطن کی محبت سے مملو، چاہے جتنے بھی ایمان افروز اور نسلی تفاخر میں ڈوبی تشبیہات اور استعاروں کا سہارا پکڑلے، اس کی نثر سے اٹھتا تعفن حساس اور درد مند قاری کو ناک پر معطر رومال رکھنے پر مجبور کردیتا ہے۔
ترکی کے ادیب اورحان پامُک نے جب اپنی زندگی کا پہلا اور آخری سیاسی ناول ’برف‘ لکھا تو ملک کے سیکولر اور قدامت پسند مذہبی طبقوں نے، الگ الگ وجوہات کی بنا پر، ایک ساتھ شدت سے ناک چڑھایا۔ پامُک کے اپنے الفاظ کے مطابق، ’ترکی کے سیکولروں کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ میں نے اسلامیوں کو بطور انسان پیش کیا‘ جبکہ اسلامیوں کا مقدس گروہ اس لیے ناراض تھا کہ ’میں نے ان کے ایک لیڈر کے بارے میں لکھا جو شادی کے بغیر جنسی عمل سے لطف اندوز ہوتا تھا‘۔ ایک گروپ جیتے جاگتے سانس لیتے وجودوں کو انسان ماننے سے انکاری جبکہ دوسرا خود کو فرشتوں سے کم کہنے کہلانے پر راضی نہ تھا۔