سعودی عرب خاشقجی قتل کا ’اوپن ٹرائل‘ کرے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں گرفتار 11 مشتبہ ملزمان کی خفیہ سماعت کو عالمی معیار کے خلاف قرار دیتے ہوئے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا ہے۔
قطری نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کی رپورٹ کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی اقوام متحدہ کی 3 رکنی ٹیم کی سربراہ اگنیس کیلامارڈ نے سعودی عرب سے ابتدائی طور پر حراست میں لیے گئے 11 ملزمان کے نام سامنے لانے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ ’سعودی عرب کی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ مقدمے کی کارروائی کے طریقہ کار سے عالمی برادری کو اس کے منصفانہ اور جانبدار ہونے سے اور اس کے اختتام پر حاصل کیے جانے والے نتائج سے متعلق مطمئن کردے گی تو وہ غلطی پر ہے‘۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی قتل: سعودی عرب کا 'ٹرائل' ناکافی ہے، اقوام متحدہ
ذرائع نے بتایا کہ سعودی عرب کی جانب سے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے اعلان کے باوجود سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی سعود القحطانی، جنہیں جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے برطرف کیا گیا تھا، ان 11 مشتبہ ملزمان میں شامل نہیں ہیں۔
اگنیس کیلا مارڈ نے عالمی طاقتوں کے سفارتکاروں کی سعودی عرب کی سماعت میں شرکت پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’انصاف کی عدم فراہمی میں کردار ادا کرنا خطرہ ہے، ہمیں یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ یہ ٹرائل انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں‘۔
الجزیرہ کے سینئر سیاسی تجزیہ کار مروان بشارہ نے کہا سعودی عرب کی جانب سے اوپن ٹرائل کرنے کے امکانات نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’دکھاوے کے طور پر ٹرائل کے بجائے ایک اوپن اور سنگین ٹرائل لازمی طور پر اس جرم کے اصل ذمہ داران تک پہنچائے گا‘۔
یہ بھی پڑھیں: خاشقجی قتل: اقوام متحدہ کی ٹیم کا استنبول میں سعودی قونصل خانے کا دورہ
مروان بشارہ نے کہا کہ ’جیسا کہ ہم نے سی آئی اے ڈائریکٹرز سمیت دیگر مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے سنا تھا کہ یہ ولی عہد کی واضح شمولیت کے بغیر نہیں ہوسکتا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ سعودی عرب، اچھی رائے عامہ بنانے کے لیے معاملے کو آخر تک ایک شو ٹرائل کے طور پر جاری رکھے گا‘۔
خیال رہے کہ 25 جنوری کو اقوام متحدہ نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش کے لیے کولمبیا یونیورسٹی کی اگنیس کیلامارڈ کی سربراہی میں عالمی ماہرین کی 3 رکنی ٹیم تشکیل دی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھنے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ سال 2 اکتوبر کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے تھے لیکن پھر ان کی واپسی نہیں ہوئی تھی، جس کے بعد ان کے قتل کی خبر آئی تھی جبکہ ترک حکام نے تفتیش کے بعد ایک مفصل رپورٹ جاری کی تھی۔
امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے حوالے سے 17 نومبر 2018 کو امریکی ذرائع ابلاغ میں رپورٹس آئی تھیں کہ ایجنسی کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی قتل کی تفتیش کیلئےاقوام متحدہ کی ٹیم تشکیل
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سی آئی اے کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 15 سعودی ایجنٹ سعودی طیارے کے ذریعے استنبول آئے اور سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کو قتل کیا۔
سعودی عرب نے اس رپورٹ میں سی آئی اے کی تحقیقات کے حوالے سے دی گئی تفصیلات کو فوری طور پر مسترد کر دیا تھا تاہم اس حوالے سے ابتدائی تفتیش کے بعد کیس کی سماعت بھی شروع کردی تھی اور متعدد عہدیداروں کو بھی برطرف کردیا تھا۔
دوسری جانب ترکی نے بھی تفتیش کی تھی جس میں سعودی عرب کے اعلیٰ حکام کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا تاہم صدر رجب طیب اردوان نے واضح کیا تھا کہ سعودی فرمان روا شاہ سلمان کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والا صحافی 'ترکی سے لاپتہ'
اس حوالے سے ترکی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو اس شخص کی شناخت ظاہر کرنی چاہیے جس نے جمال خاشقجی کی لاش کو ٹھکانے لگایا اور اس قتل کے تمام ذمہ داران کا احتساب کیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کے مقدمے کی پہلی سماعت 3 جنوری 2019 کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی عدالت میں ہوئی تھی جس میں اٹارنی جنرل نے 11 نامزد ملزمان میں سے 5 کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس مقدمے کی سماعت کے زیادہ تفصیلات میڈیا پر نہیں آئی تھیں تاہم اے ایف پی کے مطابق سعودی پریس ایجنسی نے بتایا تھا کہ تمام نامزد 11 ملزمان اپنے وکلا کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے تھے۔