قواعد و ضوابط کے برخلاف پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمین برطرف
وزارت صنعت و پیداوار نے طے شدہ قوانین کے برعکس پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمین کو برطرف کر کے اصول و ضوابط کے خلاف بورڈ کا اجلاس منعقد کیا۔
وزارت پیداوار کے ایک آفیشل نے بتایا کہ انجینئر ایم اے جبار کو بورڈ کی رکنیت سے دستبردار کرانے کا نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن کی رسمی منظوری کے بعد جاری کیا گیا تھا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ نوٹیفکیشن وزیر اعظم کے مشیر برائے صنعت و تجارت عبدالرزاق داؤد کی ایما پر جاری کیا گیا البتہ جب ایم اے جبار کی برطرفی کے لیے استعمال کیے گئے طریقہ کار پر بات چیت کے لیے عبدالرزاق داؤد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس پر بیان دینے سے انکار کردیا۔
کسی بھی بورڈ سے ڈائریکٹر کو ہٹانے کا طریقہ کار پبلک سیکٹر کمپنی کے کارپوریٹ گورننس قوانین 2013 میں دیا گیا ہے اور اس قانون کے تحت ڈائریکٹر کو ہٹانے سے قبل اس کو ہر حال میں نوٹس جاری کیا جانا چاہیے، البتہ اس معاملے میں وزارت کے آفیشل نے جواز پیش کیا کہ ڈائریکٹر کو ہٹانے کے قانون کی وہ شق استعمال کی گئی جس کے تحت بورڈ کے رکن کی جانب اجازت کے بغیر عوام میں بیان دینا ممنوع ہے۔
دوسری جانب ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ایم اے جبار نے کہا کہ انہوں نے سینیٹر احمد خان کی زیر سربراہی اسٹیل ملز کا دورہ کرنے والی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کو بیانات دیے تھے۔
انجینئر جبار نے کہا کہ اگر میں غلط بیان دیتا تو قانون کے تحت وہ بھی جرم ہے اور سچ بولنا وزیر اعظم کے مشیر کو پسند نہ آیا، یہ بات انتہائی پریشان کن ہے۔
اتفاقاً پبلک سیکٹر کمپنی کے کارپوریٹ گورننس قوانین 2013 کے سیکشن 4(2)بی میں کہا گیا کہ بورڈ کا اجلاس چیئرمین ہی منعقد کرے گا جو ایجنڈا طے کرنے کا بھی پابند ہے۔
البتہ جمعرات کو پاکستان اسٹیل ملز کے بورڈ کے اجلاس کو قائم مقام چیف ایگزیکٹو نعیم جان اور وزارت صنعت و پیداوار کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری کی ہدایت پر کمپنی کے سیکریٹری نے طلب کیا تھا۔
مذکورہ اجلاس میں بعدازاں محمد رضی الدین کو پاکستان اسٹیل ملز کے بورڈ کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔
رضی الدین آئل اینڈ گیس کمپنی، خیبر پختونخوا کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اسٹیل ملز بورڈ کا حصے بنے تھے لیکن انہیں گزشتہ نومبر خیبر پختونخوا حکومت نے برطرف کردیا تھا۔
ایم اے جبار کو اجلاس میں طلب نہیں کیا گیا اور انہوں نے کہا کہ انہیں ہٹانے کے لیے قانونی طریقہ کار استعمال نہیں کیا گیا لیکن ڈان کی انتہائی کوشش کے باوجود عبدالرزاق داؤد یا وزارت کے کسی بھی آفیشل نے اس پر بات نہیں کی۔
یہ خبر 29مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔