شدت پسندی کا عالمی منظرنامہ


سانحہ کرائسٹ چرچ ’سفید فام بالادستی‘ اور ’اسلامو فوبیا‘ جیسے شدت پسند رجحانات کے ملاپ کو ظاہر کرتا ہے۔ سفید فام بالادستی کا نظریہ کہتا ہے کہ سفید فام افراد دیگر نسل کے لوگوں سے برتر ہیں لہٰذا انہیں دیگر نسلی گروہوں پر غلبہ حاصل ہونا چاہیے۔ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ سیاہ فام، ہسپانوی، ایشیائی افراد اور یہودیوں کو بھی ہدف بناتا ہے۔ اسلامو فوبیا مغربی، ہندو، بدھمتی اور یہودی سماجوں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت کی صورت میں نظر آتا ہے۔
یہ دونوں خیالات کافی پرانے ہیں۔ سفید فام بالادستی تو صدیوں تک مغرب میں ایک باضابطہ نظریہ رہا جس نے کلونلزم، غلامی، نسل کشی اور نازی ازم کی صورت میں ظلم و بربریت سے بھرپور استحصال کی اقسام کو جنم دیا۔ گزشتہ صدی کے دوران اس قسم کی ظالمانہ سوچ کو کنارے سے لگایا جانے لگا۔
استحصالی سوچ کو آہستہ آہستہ کنارے سے لگایا جانے لگا۔ مگر یوں فقط دیگر نسلی گروہوں کے خلاف طاقت کا استعمال کم ہوا ہے جبکہ سماجی و اقتصادی پالیسیوں کے ذریعے عدم تشددی نسلی غلبہ اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہے، امریکا کا ہی مثال لیجیے جہاں یہ سب قدامت پسندوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ لہٰذا سرمایے اور لیبر کے درمیان منافع کی غیر منصفانہ تقسیم کے ذریعے کام کی جگہوں پر طبقاتی اقتصادی استحصال بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ جس کے بعد تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے کمزور نسلی گروہ اور قومی شناخت کے حامل افراد کے خلاف کام کی جگہوں اور اس کے علاوہ بھی معاشرتی لحاظ سے امتیاز نظر آتا ہے۔ مذکورہ دونوں باتوں سے امیر سفید فام افراد کو اضافی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
سفید فام بالادستی کے اہداف میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہی ہے، اصلی باشندے، سیاہ فام، یہودی، ایشیائی، ہسپانوی افراد اور چونکہ سفید فام بالادستی کا سامنا اسلاموفوبیا سے ہوا ہے لہٰذا اب مسلمان بھی نشانے پر ہیں۔ مغربی اسلامو فوبی کی ایک پوری تاریخ ہے جو مسلمانوں کی ابتدائی فتوحات تک پھیلی ہوئی ہے۔ حالیہ دور میں انقلاب ایران، شدت پسندی اور مغرب کی طرف مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی ہجرت جیسے رجحانات کی وجہ سے ایک بار پھر اسلاموفوبیا کو ہوا ملی ہے۔
مذکورہ رجحانات سے دیگر معاشروں میں بھی پوشیدہ اسلاموفوبیا سے منسوب دہشتگردی کو ہوا ملی ہے، ان میں ہندو، یہودی اور یہاں تک کہ بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت والے معاشرے شامل ہیں۔ مغرب کی ہی طرح، وہاں بھی مقصد کمزور گروہ پر غالب رہنے تک محدود ہے، البتہ ان میں شدت اور طریقہ کار ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں، جن میں ہندوستان اور سری لنکا میں مخصوص حملوں سے لے کر اسرائیلی قبضہ اور مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ، اس کے علاوہ میانمار میں نسل کشی تک شامل ہے۔
دوسری بات یہ کہ، اس کا مذہب کا اپنے طور پر استعمال کافی نمایاں ہے۔