پاکستان

گھوٹکی کی نومسلم لڑکیوں کو تحفظ کیلئے سرکاری تحویل میں دینے کا حکم

فائنل رپورٹ آنے تک یہ لڑکیاں آپ کی مہمان ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی ڈپٹی کمشنر کو ہدایت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی نومسلم لڑکیوں کو سرکاری تحویل میں دینے کا حکم دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ڈائریکٹر جنرل ہیومن رائٹس کے حوالے کردیا۔

اسلام قبول کر کے شادی کرنے والی لڑکیوں نے گزشتہ روز اپنے شوہروں سمیت اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

مزید پڑھیں: مبینہ مغوی لڑکیوں کے بھائی کی لاہور ہائی کورٹ میں درخواست

درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا لیکن منفی پروپیگنڈے سے جان کو خطرات لاحق ہیں لہٰذا عدالت حکومت کو ہمیں تحفظ فراہم کرنے کے احکامات صادر کرے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہرمن اللہ نے پسند کی شادی کرنے والی بہنوں کے تحفظ سے متعلق درخواست کی سماعت کی جس میں دونوں بہنیں اپنے شوہروں اور وکلا کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔

سماعت کے موقع پر سندھ پولیس کے سب انسپکٹرصاحب دینو اور ہیڈ محرر انور علی 21مارچ کو درج کرائی گئی ایف آئی آر کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، لڑکیوں کا بھائی سمن داس اور ان کے وکیل بھی احاطہ عدالت میں موجود تھے۔

نو مسلم لڑکیوں کی جانب سے درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ دونوں بہنوں اور ان کے شوہروں کو جان کا خطرہ ہے لہٰذا انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ’ دباؤ کے بغیر اسلام قبول کیا‘، مبینہ مغوی بہنوں نے تحفظ کیلئے عدالت سے رجوع کرلیا

سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ لڑکیوں کی عمر کتنی ہے جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ ایک لڑکی کی عمر 20سال ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کچھ لوگ اس مقدمے کی بنیاد پر پاکستان کا تشخص مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں حالانکہ اسلام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا پیغام دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق آئین پاکستان میں درج اور قرآن پاک سے واضح ہیں، اس مقدمے کوبہت محتاط اندازمیں دیکھنے کی ضرورت ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کوتحفظ حاصل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتح مکہ اور خطبہ حجتہ الوداع پر دو خطاب ہیں جس میں اقلیتوں کے حقوق پر بات کی گئی اور وہ دونوں خطاب اقلیتوں کے حوالے سے ہمارے لیے قانون و آئین کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقت نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ نے بھی اس معاملے پر انکوائری کا حکم دیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم نے بھی شفاف تحقیقات کا حکم دیا تھا، اس کی رپورٹ کب تک آئے گی۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم نے ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا نوٹس لے لیا

انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری بھی اس معاملے کو دیکھ رہی ہیں جس پر حکومتی نمائندے نے جواب دیا کہ وہ ایک ہفتے میں معاملے پر انکوائری مکمل کرلیں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو کہا کہ فائنل رپورٹ آنے تک یہ لڑکیاں آپ کی مہمان ہیں اور کہا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو کہیں کہ گارجین جج کا تقرر کریں۔

عدالت نے دونوں بہنوں کوڈپٹی کمشنراور ڈی جی ہیومن رائٹس کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ عدالتی حکم کے بغیر لڑکیوں کو کسی دوسرے شہر نہیں لے جایا جائے بلکہ شیلٹر ہوم میں رکھا جائے۔

عدالت نے وزیراعظم انکوائری رپورٹ آئندہ منگل تک جمع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 2 اپریل ملتوی کردی۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ لڑکیوں کی حفاظت کی ذمے داری اسلام آباد انتظامیہ اور وفاقی حکومت کی ہوگی اور ایس پی رینک کی خاتون پولیس افسر ان کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور ہوں گی۔

لڑکیوں نے بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بغیر کسی دباؤ کے اسلام قبول کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہندو لڑکیوں کا مبینہ اغوا، رحیم یار خان سے نکاح خواں سمیت 7 افراد گرفتار

بعد ازاں دونوں نو مسلم بہنوں کو پولیس کی تحویل میں دارالامان منتقل کر دیا گیا۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں دونوں لڑکیوں کے شوہروں کی جانب سے حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل عمیر بلوچ نے موقف اختیار کیا ہے کہ دونوں نو مسلم بہنوں کے شوہر برکت علی اور صفدر علی کے خلاف ایف آئی آر درج ہے، پولیس کو ان کی گرفتاری سے روکا جائے۔

واضح رہے کہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے گھوٹکی کی دو لڑکیوں کے بھائی اور والد کی ویڈیوز گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر زیر گردش کر رہی تھیں جن میں وہ کہہ رہے تھے کہ ان کی دو بیٹیوں کو اغوا کر کے ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب دونوں لڑکیوں کی ویڈیوز بھی زیر گردش کر رہی ہیں جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے 24 مارچ کو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور ان کی رحیم یار خان منتقلی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا تھا۔