پاکستان

آئی ایم ایف سربراہ کی پاکستان آمد، حکومت کی نظریں بیل آؤٹ پیکج پر مرکوز

چین سے قرض موصول ہونے کے بعد حکومت آئندہ 4 سے 6ماہ میں آئی ایم ایف پیکج پر حتمی بات چیت کیلئے پرامید ہے

اسلام آباد: چین سے 2ارب ڈالر سے زائد کا قرض موصول ہونے کے بعد جہاں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 17.58ارب ڈالر کے ساتھ اپریل 2018 کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ گئے، وہیں حکومت آئندہ 4 سے 6ماہ میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکج پر حتمی بات چیت کے لیے پرامید ہے تاکہ آئندہ سال کے بجٹ کو تیار کیا جا سکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے لیے آئی ایم ایف مشن کے نئے سربراہ ارنیستو ریمیریز ریگو آج پاکستان پہنچیں گے جہاں وہ وزیر خزانہ اسد عمر اور دیگر سینئر آفیشلز کے ہمراہ تین سالہ پروگرام کی تیاری کو حتمی شکل دیں گے، اس موقع پر آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمائندہ ماریہ ٹریسا دبن بھی کراچی کا دورہ کریں گی تاکہ اگلے دن اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے بات چیت کی جا سکے۔

مزید پڑھیں: کیا پی ٹی آئی کے پاس آئی ایم ایف ہی آخری آپشن ہے؟

ایک سینئر آفیشل نے ڈان کو بتایا کہ دو روزہ دورے کے دوران دونوں فریقین اگلے ماہ کے وسط تک رسمی مشن کے آغاز کے لیے تاریخ کا تعین کر لیں گے۔

آفیشل نے بتایا کہ آئی ایم ایف سربراہ کے دورے سے قبل ان کے نمائندوں پر مشتمل ایک ٹیم گزشتہ دو دنوں سے اسلام آباد میں وزارت خزانہ کے حکام کے ساتھ مسائل پر بات چیت میں مصروف تھی، دونوں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ان تجاویز کو آنے والے بجٹ کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ اس سے اگلے سال کی ابتدا میں عملدرآمد کے لیے ان کو منی بل 20-2019 کا حصہ بنا کر پارلیمنٹ سے منظور کروایا جائے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ اصلاحات کے ایجنڈے پر کامیابی سے عملدرآمد کو حکومت کے مقبول دور میں اترنے سے پہلے انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی آئی ایم ایف سے سب سے بڑا قرض پیکیج حاصل کرنے کی کوشش

انہوں نے کہا کہ کسی بھی قسم کی مشکل اصلاحات کی کامیابی کے لیے ابتدائی دو بجٹ انتہائی اہم ہوتے ہیں اور پہلے مالی سال کا اختتام تقریباً ہمارے سر پر ہے اور تیسرا بجٹ الیکشن سائیکل کے انتہائی قریب ہو گا۔

اس پالیسی ایکشن میں سب سے زیادہ اہم توانائی کا شعبہ ہے جہاں متعلقہ حکام کو 1.6ٹریلین ڈالر پر موجود گردشی قرضوں کے حل کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرنی ہے۔

وزارت خزانہ پہلے ہی توانائی کے شعبے کو یہ واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ وہ آئندہ ہفتوں میں اپنے منصوبوں کو حتمی شکل دے اور ساتھ ساتھ خبردار کیا کہ وہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیرف کی مد میں 120ارب روہے سے زیادہ کی سبسڈی نہیں دے سکیں گے۔

مزید پڑھیں: حکومت 'آئی ایم ایف' کے مجوزہ اقدامات پر عملدرآمد کیلئے تیار

آفیشلز کا کہنا ہے کہ پہلے سال مکمل وصولی مشکل ہے لیکن مستحکم خسارہ یقینی بنانے کے لیے پہلے سال ٹیرف میں 20 سے 30فیصد اضافہ ناگزیر تھا جبکہ حکومت کو capacity payments کی مد میں آئندہ دو ماہ کے دوران 200ارب روپے کے اثرات بھی صارفین تک منتقل کرنا ہوں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ گیس کے ٹیرف میں بھی 15 سے 22 فیصد تک اجافہ کای جائے گا جہاں گیس کمپنیوں نے 145فیصد تک اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔