اکتوبر 2018ء میں انڈونیشیا کی لائن ایئر کا طیارہ بھی پرواز کے چند لمحوں بعد حادثے کا شکار ہوگیا تھا—تصویر: ٹوئٹر
لیکن جہاں اتنے سارے ممالک نے سخت ایکشن لیا، وہاں ابتدائی طور پر امریکی حکومت اور فضائی ریگولیٹرز اپنی کمپنی بوئنگ کی پشت پر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے بوئنگ 737 میکس طیاروں کو گراونڈ کرنے سے انکار کردیا۔ سچ پوچھیے تو یہ فیصلہ مسافروں کی زندگی کے لیے ایک بہت بڑا رسک تھا۔
لیکن پھر ایتھوپیا کے حادثے کے بعد ملنے والے ڈیٹا سے پتہ چلا کہ پرواز کے فوری بعد طیارے کے فلائٹ کریو اور کمپیوٹر کے درمیان ایک کشمکش جاری تھی۔ سافٹ ویئر طیارے کی نوز کو نیچے لے جانے کی کوشش کررہا تھا جبکہ پائلٹ طیارے کو اوپر لے جانے کے لیے نوز کو اوپر اٹھا رہا تھا۔ اب چونکہ طیارے میں لگے سینسرز سافٹ ویئر سے منسلک تھے، لہٰذا کمپیوٹر نظام نے سینسرز سے ملنے والے غلط ڈیٹا پر عمل کیا جس کا نتیجہ تباہی کی صورت نکلا۔
اس انکشاف کے بعد امریکا نے فیڈرل ایوی ایشن کی سفارش پر بوئنگ 737 میکس طیاروں کو حادثے کے کئی دن بعد گراونڈ کردیا، جس کا اعلان امریکی صدر ٹرمپ نے کیا اور انہوں نے صرف 737 میکس 8 کو ہی گراونڈ نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ 737 میکس 9 کو بھی گراونڈ کردیا۔ لیکن حیرانی کی بات یہ کہ جس وقت امریکی صدر یہ حکم نامہ جاری کررہے تھے ٹھیک اسی وقت 24 سے زائد بوئنگ 737 میکس طیارے فضا میں موجود تھے۔
غلطی ہوئی کہاں؟ گھوم پھر کر اہم ترین سوال یہی ہونا چاہیے کہ آخر یہ سب کچھ ہوا کیوں؟ سوال کا جواب کچھ طویل مگر دلچسپ ہے۔
دیکھیے اس وقت دنیا میں طیارہ سازی کی مارکیٹ پر یورپی اور امریکی کمپنیوں کی اجارہ داری اور باہمی مقابلہ ہے۔ ایئر بس یورپی برانڈ ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا طیارہ ایئر بس A380 بھی بناتی ہے۔ مگر بوئنگ طیارہ سازی میں امریکی کمپنیاں زیادہ تجربہ رکھتی ہیں۔ ایئر بس کو یورپ کے مختلف ملکوں میں تیار کیا جاتا ہے، جبکہ بوئنگ تمام تر کام اپنی اسمبلی لائن پر کرتا ہے۔
گزشتہ دہائی میں ایئر لائن میں بڑے طیاروں کی طلب پیدا ہوئی تو ایئر بس کا A380 طیارہ کامیاب رہا مگر جلد ہی مسافروں اور ایئرلائنز کو احساس ہوا کہ بین البراعظمی طیاروں کے بجائے پوائنٹ ٹو پوائنٹ درمیانے درجے کے سفر کے لیے طیاروں کی طلب بڑھ رہی ہے اور پھر مقابلہ دوبارہ نیرو باڈی طیاروں کی طرف منتقل ہوگیا۔
ایئر بس نے اپنے A320 طیاروں کا نیا ماڈل Neo متعارف کرایا جس کے مقابلے میں بوئنگ نے اپنے کامیاب ترین 737 کا نیا ماڈل 737 میکس متعارف کروا دیا۔ مگر بوئنگ نے اس طیارے میں جو تبدیلیاں کیں اس کی وجہ سے طیارہ پہلے سے آپریشن میں موجود 737 طیاروں سے بہت مختلف ہوگیا۔ طیارے کے فیوز لاج یا ڈھانچے کو بڑا کیا گیا اور 12 اضافی نشستوں کی گنجائش پیدا کی گئی۔ اس کے علاوہ طیارے کے ونگز کے ڈیزائین میں بھی تبدیلیاں کی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ زیادہ طاقتور انجنوں اور ان کو لگائے جانے کی جگہ میں تبدیلی نے طیارے کی اڑان کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔ مگر بوئنگ کمپنی نے مقابلے کی دوڑ کے سبب بعض اہم باتوں کو جان بوجھ کو چھپایا جو 2 بدترین اور جان لیوا حادثات کا سبب بنا۔
بوئنگ نے اپنے طیارے میں تبدیلی کرنے کے باوجود یہ بتایا کہ یہ بالکل 737 جیسا ہی ہے۔ اس کی 2 بڑی وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ بوئنگ نے نئے طیارے کو زیادہ اسمارٹ، آرام دہ کے ساتھ ساتھ کم قیمت طیارے کے طور پر بھی متعارف کروایا تھا۔ 737 میکس میں ایندھن کی بچت 14 فیصد اور آپریٹنگ لاگت میں 8 سے 10 فیصد کی بچت بتائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بوئنگ نے یہ بھی دعوٰی کیا کہ ایئر لائیز کو پائلٹس کی تربیت پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی بچت ہوگی کیونکہ 737 اڑانے والے پائلٹس ہی یہ طیارہ بغیر کسی اضافی تربیت کے اڑا سکیں گے۔ حالانکہ اس نئے جہاز میں نئے فلائٹ کنٹرول کا نظام موجود تھا، مگر بوئنگ نے جان بوجھ کر اس کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔ مگر ان طیاروں میں خرابی کے حوالے سے میڈیا میں مسلسل خبریں آرہی تھیں۔ نیو یارک ٹائمز نے بھی اس حوالے سے خبر بریک کی تھی۔
اس کے علاوہ بوئنگ کمپنی 737 طیاروں کو اپنے لیے نیک شگون بھی سمجھتی ہے۔ یہ طیارے دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے طیارے ثابت ہوئے ہیں۔ بوئنگ نے 1967ء میں 737 طیارے تیار کرنا شروع کیے تھے اور اب تک یہ کمپنی تقریباً 10 ہزار طیارے فروخت کرچکی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ دنیا میں فروخت ہونے والا سب سے بڑا ماڈل ہے۔
بوئنگ کے نئے طیار ے 737 میکس کو بھی شاندار کامیابی ملی اور 2017ء کے بعد سے اب تک 350 سے زائد طیارے فروخت ہوچکے ہیں۔ جبکہ تقریباً 4 ہزار طیاروں کا آرڈر بھی مل چکا ہے۔ یہی وہ طیارہ تھا جس کی کامیابی کے بعد بوئنگ نے یورپی طیارہ ساز کمپنی کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ مگر 737 میکس طیاروں کے حالیہ حادثے نے بوئنگ کمپنی کو شدید مالی نقصان پہنچایا ہے۔ کمپنی کے حصص کی قیمت 10 فیصد سے بھی زائد گرچکی ہے کیونکہ دنیا بھر کی ایئر لائنز 737 میکس کے آرڈر منسوخ کررہی ہیں۔
بوئنگ نے 2018ء میں 100 ارب ڈالر کا ریونیو اور 10 ارب ڈالر کا منافع کمایا تھا مگر اب کمپنی ڈوبتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ بوئنگ کی جانب سے دوسری بڑی فنی خرابی سامنے ہے۔ اس سے قبل سال 2013ء میں بوئنگ کے ڈریم لائنر طیاروں میں بھی فنی خرابی پیدا ہوئی تھی جس کی وجہ سے انہیں بھی گراونڈ کرنا پڑا تھا۔ اس خرابی نے بوئنگ کمپنی کو 5 ارب ڈالر کا دھچکہ پہنچایا تھا۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اس نئے جہاز میں انجن، پروں اور ڈھانچے میں تبدیلی کی گئی جس سے طیارے کا مرکز کشش ثقل Center of Gravity تبدیل ہوگیا۔ اس تبدیلی کی وجہ سے طیارے کے دوران پرواز نوز کے اوپر اٹھنے کے مسائل پیدا ہوئے۔ دوران پرواز طیارے کی نوز نیچے ہونے کی وجہ سے طیارے کے انجنوں میں ہوا کا گزر کم ہوجاتا ہے اور طیارے کی رفتار کم ہونے کے ساتھ ساتھ بلندی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔ اگر اس عمل کو درست نہ کیا جائے تو طیارہ کریش ہوجاتا ہے۔ اس عمل کو ایوی ایشن کی زبان میں اسٹال stall کہا جاتا ہے۔ جس کو حل کرنے کے لیے بوئنگ نے مصنوعی ذہانت یا Artificial Intelligence کے تحت ایک نیا نظام متعارف کروایا جس کو Maneuvering Characteristics Augmentation System کہا جاتا ہے۔
لیکن اصل مسئلہ اس وقت ہی پیدا ہوا جب اس سسٹم کے بارے میں پائلٹس کو کوئی اضافی معلومات یا تربیت نہیں دی گئی۔ یہ نظام جہاز میں لگے حساس آلات سے ڈیٹا لیتا اور اس ڈیٹا کی بنیاد پر خود ہی فیصلہ کرتا اور طیارے کی نوز کو درست سمت میں کردیتا ہے۔ یہ عمل اتنا تیزی سے کام کرتا ہے کہ پائلٹس کو کچھ اطلاع یا سمجھائے بغیر یہ اپنا کام کرجاتا اور پائلٹس پریشان رہ جاتا کہ اچانک یہ کیا ہوگیا؟ بوئنگ کے ڈیٹا کے مطابق یہ نظام 3 سے 5 سیکنڈ میں متحرک ہوتا ہے اور اپنا کام کرنے کے بعد خود بہ خود بند ہوجاتا ہے۔
بوئنگ 737 میکس اڑانے والے پائلٹس نے ناسا کے رپورٹنگ نظام میں شکایت درج کرائی تھی مگر اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ پائلٹس نے بوئنگ 737 میکس کے دوران پرواز خطرناک رویے کی بھی شکایت کی تھی۔ پائلٹس کا کہنا تھا کہ فلائٹ کنٹرول کا سسٹم اچانک طیارے کو نیچے گرانے لگتا ہے اور طیارے کو بچانے کے لیے انہوں نے فلائٹ کنٹرول سسٹم کو غیر موثر کرنے کے بعد طیارے کو مینؤل طریقے سے قابو میں کیا۔
راجہ کامران
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔