انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس کے جوان نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے مفتی تقی عثمانی کو محفوظ رکھا جبکہ دوسری گاڑی پر فائرنگ میں بھی ایک شخص کے جاں بحق اور ایک کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
انہوں نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی کے ساتھ سیکیورٹی موجود تھی اور وہ ہر جمعہ کو بیت المکرم مسجد میں نماز پڑھانے آتے تھے۔
‘واقعہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کا تسلسل نہیں‘ ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس امیر شیخ نے کہا کہ دو موٹر سائیکلوں پر سوار 4 دہشت گردوں نے گاڑی پر فائرنگ کی۔
انہوں نے کہاکہ یہ واقعہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کا تسلسل نہیں، یہ فرقہ واریت کی نہیں بلکہ کراچی کا امن خراب کرنے کے سازش لگتی ہے۔
’فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خطرات موجود‘ فائرنگ کے واقعے کے بارے میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے انچارج راجا عمر خطاب کا کہنا تھا کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس واقعے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جبکہ نرسری کے واقعے کا علم نہیں۔
علاوہ ازیں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس گلشن اقبال طاہر نورانی نے ڈان کو بتایا کہ فائرنگ کے واقعے میں مفتی تقی عثمانی مکمل طور پر محفوظ رہے۔
انہوں نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی ہر جمعہ کو بیت المکرم مسجد میں نماز پڑھانے آتے تھے، آج جمعہ کی نماز سے کچھ دیر قبل نیپا چورنگی کے قریب ان کی کار پر دو موٹرسائیکلوں پر سوار 4 نامعلوم ملزمان نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک پولیس گارڈ محمد فاروق جاں بحق جبکہ مفتی تقی عثمانی کا نجی سیکیورٹی گارڈ حبیب زخمی ہوگیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مفتی تقی عثمانی کی کار کے پیچھے دوسری گاڑی پر بھی ملزمان نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں کار ڈرائیور صنوبر جاں بحق جبکہ مذہبی اسکالر عامر شہاب زخمی ہوگئے۔
محافظ جاں بحق، بیٹے کی تصدیق فائرنگ کے واقعے کے بعد ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی کے صاحبزادے عمران تقی کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مفتی تقی عثمانی کو محفوظ رکھا لیکن ان کے محافظ جاں بحق ہوگئے۔
انہوں نے بتایا جاں بحق ہونے والے دو محافظوں میں ایک سندھ پولیس کا اہلکار جبکہ ایک نجی کمپنی کا گارڈ تھا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ والد صاحب کو کبھی کوئی دھمکی نہیں ملی، وہ ایک غیر متنازع شخصیت ہیں۔
’مفتی تقی عثمانی نے خطرات سے آگاہ کیا تھا‘ گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سیکیورٹی اداروں نے بڑی جانفشانی سے شہر کے امن کو بحال کیا، پی ایس ایل میں بہت خطرات تھے لیکن ہماری ایجنسیوں نے اسے کامیاب بنایا۔
انہوں نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی نے انہیں خطرات سے آگاہ کیا تھا، میری اُن سے بات ہوئی وہ خیریت سے ہیں لیکن ان کا گارڈ جاں بحق ہوگیا، یہ واقعہ پورا ٹارگٹڈ تھا اور وہ مفتی صاحب کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔
گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے شبہ سرحد پار عناصر کی طرف جاتا ہے، ہم آج رات تک ملوث عناصر کو پکڑلیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سیکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، آج کا واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے لیکن ہم نے اداروں کا ساتھ دے کر ایسے عناصر کو پکڑنا ہے۔
'حملہ گہری اور گھناؤنی سازش' وزیر اعظم عمران خان نے مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ہدایت کی کہ واقعے کی سازش بے نقاب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
انہوں نے اپنے بیان میں مفتی تقی عثمانی کی خیروعافیت کی خبر پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مفتی تقی عثمانی جیسی قابل قدر ہستی پر حملہ گہری اور گھناؤنی سازش ہے اور ان جیسے جید عالم دین ملک اور عالم اسلام کا اثاثہ ہیں۔
وزیر اعظم نے صوبائی حکومتوں کو علمائے کرام کی سیکیورٹی یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے فائرنگ میں مفتی تقی کے گارڈز کے جاں بحق ہونے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین کی جانب سے مشترکہ بیانیے میں حملے کو افسوس ناک اور قابل مذمت قرار دیا گیا اور حکومت اس کے پس پردہ عوامل اور اسباب سے قوم کو آگاہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ کرنے کی جسارت کرنے والے عناصر اور ان کے نیٹ ورک کا سراغ لگا کر نشان عبرت بنایا جائے‘۔
انہوں نے حملے کو لمحہ فکریہ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ ’علمائے کرام سے سیکیورٹی واپس لینے والے اس حملے کے برابر کے ذمہ دار ہیں‘۔
دوسری جانب چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں پاکستان سپر لیگ کا کامیاب انعقاد دہشت گردوں سے برداشت نہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ فائرنگ میں ملوث ملزمان کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔
علاوہ ازیں سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کراچی میں مفتی تقی عثمانی پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کو قانون کی گرفت میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد سے کراچی کے دشمن جل گئے ہیں لیکن کراچی کا امن خراب کرنے والوں کو سختی سے کچل دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ خدا کا شکر ہے مفتی تقی عثمانی محفوظ رہے اور مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو پکڑ کر کراچی کا امن خراب کرنے کی سازش کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔
دریں اثنا امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے مفتی تقی عثمانی پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ مولانا محمد تقی عثمانی صاحب پر قاتلانہ حملہ انتہائی قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے، اللہ تعالی کا لاکھ شکرہے کہ وہ اپنی اہلیہ اورپوتوں سمیت محفوظ رہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلانےکی بڑی سازش ناکام ہوگئی، حکومت فوری طور پر سازش بے نقاب کرے اور حملہ آوروں اور ان کے سرپرستوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملے کی مذمت کی اور کہا حکومت علماء کرام کو تحفظ دینے میں ناکام ہوگئی ہے، حملہ آوروں کو فوری گرفتار کیا جائے۔
مزید برآں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجا ناصر عباس جعفری نے مفتی تقی عثمانی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی شخصیات پر فائرنگ شہر کا امن تباہ کرنے کی سازش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مولانا مفتی تقی عثمانی پر دہشت گرد حملے کی مذمت اور جاں بحق افراد کے ورثاء سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے شیخ الاسلام جسٹس (ر) مفتی محمد تقی عثمانی پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کونسل مطالبہ کرتی ہے بزدلانہ حملہ میں ملوث افراد کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور حکومت ایسے امن کے داعیان علماء کی حفاظت کو یقینی بنائے‘۔
مفتی تقی عثمانی اور جامعہ دارالعلوم کراچی مفتی محمد تقی عثمانی جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم ہیں جبکہ ان کے بھائی اور پاکستان کے موجودہ مفتی اعظم مفتی رفیع عثمانی بهی اس مدرسے کے رئیس وصدر ہیں۔