خفیہ کیمروں سے فحش ویڈیوز بناکر ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے والا گروہ گرفتار

ملزمان نے 1600 افراد کی فحش ویڈیوز بناکر ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی تھی، پولیس نے ملزمان گرفتار کرکے ویب سائٹ بند کردی۔

جنوبی کوریا کی پولیس نے ملک بھر کے 30 سے زائد ہوٹلوں سے مہمانوں کے خفیہ کیمرے سے فحش ویڈیوز بنا کر ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے والے ایک 2 رکنی گروہ کو گرفتار کرلیا۔

گرفتار کیے جانے والے افراد کا گروہ مجموعی طور پر کم سے کم 4 افراد پر مشتمل ہے، جس میں سے مزید ایک شخص کی گرفتاری سے متعلق پولیس پرامید ہے۔

گرفتار کیے گئے افراد نے گزشتہ چند ماہ کے دوران کم سے کم 1600 افراد یا جوڑوں کی فحش ویڈیوز بنا کر اسے ویب سائٹ پر آن لائن نشر کرنے سمیت انہیں اپ لوڈ بھی کیا تھا۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق جنوبی کورین پولیس نے ملک کے 10 مختلف شہروں کے 30 سے زائد ہوٹلز کے کمروں میں خفیہ کیمرے نصب کرکے مہمانوں کی فحش ویڈیوز بنانے والے 2 افراد کو گرفتار کرلیا۔

گرفتار کیے گئے افراد نے ملک بھر کے 30 سے زائد ہوٹلوں کے 42 کمروں میں ٹی وی، الیکٹرک بورڈ اور شیشے سمیت دیگر جگہوں پر انتہائی چھوٹے خفیہ کیمرے نصب کیے تھے۔

ان کیمروں کو ایک ویب سائٹ سے منسلک کیا گیا تھا، جو ان ویڈیوز کو براہ راست نشر کرنے کی سہولت فراہم کرتی تھی۔

انتہائی چھوٹے کیمرے الیکٹرک بورڈ میں بھی نصب کیے گئے—فوٹو: اے ایف پی

پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان نے ویب سائٹ کے لیے بیرون ملک سرور حاصل کر رکھا تھا اور اس ویب سائٹ کے مجموعی طور پر 4 ہزار رجسٹرڈ ارکان تھے۔

ویب سائٹ فحش ویڈیوز دیکھنے والے ارکان سے فیس وصول کرتی تھی، تاہم ویب سائٹ چند فیچرز پر مفت میں رسائی بھی دیتی تھی۔

ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے فحش ویڈیوز کو ہر رکن مفت میں 30 سیکنڈز تک دیکھنے کا اہل تھا، تاہم مکمل ویڈیوز دیکھنے، انہیں دوستوں کے ساتھ شیئر کرنے اور براہ راست نشریات دیکھنے کے لیے ارکان کو فیس ادا کرنی پڑتی تھی۔

رپورٹ کے مطابق اس ویب سائٹ کے محض 97 ارکان فیس ادا کرتے تھے اور گرفتار کیے گئے ملزمان نے اگست 2018 سے اب تک صرف 6 ہزار امریکی ڈالر یعنی پاکستانی 7 لاکھ روپے سے زائد کی رقم کمائی۔

پولیس جلد گرفتار کیے گئے ملزمان کو عدالت میں پیش کرے گی، اگر ان پر جرم ثابت ہوگیا تو انہیں کم سے کم 5 سال قید اور 25 ہزار امریکی ڈالر یعنی پاکستانی 28 لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ ہوگا۔

اسکینڈل سامنے آنے کے بعد پولیس نے 20 ہزار سے زائد مقامات کی تلاشی لی ہے—فوٹو: اے ایف پی

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جنوبی کوریا میں اس طرح کا اسکینڈل سامنے آیا ہو، اس سے قبل بھی اس طرح کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔

صر 2018 میں ہی پولیس نے ایسے 6 ہزار کیسز رجسٹرڈ کیے تھے، جن میں خفیہ کیمروں کے ذریعے خواتین کی فحش ویڈیوز بنائی گئی تھیں۔

یہ ویڈیوز شاپنگ مالز کے باتھ رومز، گارمنٹس دکانوں کے ڈریس چینج رومز، ہوٹلز کے کمروں اور پبلک ٹوائلٹس میں نصب کیے کئے خفیہ کیمروں کے ذریعے بنائے گئے تھے۔

بہت بڑی تعداد میں فحش ویڈیوز بنائے جانے اور انہیں ویب سائٹس پر اپ لوڈ کرنے کے خلاف گزشتہ برس جنوبی کوریا میں ہزاروں خواتین نے مظاہرے بھی کیے تھے، جس کے بعد پولیس نے آپریشن کرکے ساڑھے 4 ہزار افراد کو گرفتار بھی کیا تھا۔

بڑی تعداد میں خفیہ کیمروں سے خواتین کی نازیبا اور فحش ویڈیوز بنائے جانے کے بعد گزشتہ برس ہی حکومت نے ایسے جرائم کے خلاف نئی قانونی سازی کی تھی۔

نئی قانون سازی کے تحت ایسے جرائم میں ملوث افراد کو کم سے کم 5 سال جیل اور 25 ہزار امریکی ڈالر کے جرمانے کی سزا ہوگی۔

خواتین کے ٹوائلٹس میں بھی خفیہ کیمرے نصب کیے گئے—فائل فوٹو: دی جکارتا پوسٹ

رضامندی کے بغیر کسی تصویر کو پھیلانے اور شیئر کرنے پر بھی اسی طرح کی کڑی سزا رکھی گئی تھی۔

جنوبی کوریا میں ہوٹلز کے کمروں، ڈریسنگ رومز، باتھ رومز اور دیگر مقامات پر خفیہ کیمرے نصب کرکے خواتین کی ویڈیوز بنانے کا آغاز 2008 سے آیا، تاہم گزشتہ 3 سال میں ایسے واقعات میں تیزی دیکھی گئی۔

خفیہ کیمروں کے ذریعے فحش ویڈیوز بنانے میں تیزی 2012 سے شروع ہوئی اور اسی سال ڈھائی ہزار سے زائد کیس رجسٹرڈ کیے گئے، تاہم اس میں مزید تیزی 2017 میں دیکھی گئی۔

پولیس کے مطابق ایسی ویڈیوز بنانے والے میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کے خواتین کے ساتھ پہلے تعلقات رہے ہیں اور تعلقات ٹوٹنے کے بعد خواتین سے بدلا لینے یا پھر انہیں بدنام کرنے کی غرض سے بھی ایسی ویڈیوز بنائی جانے لگیں۔

حکام کے مطابق جنوبی کوریا میں جدید ٹیکنالوجی کی سہولیات کی وجہ سے ملزمان کو نہ صرف خفیہ کیمروں کے ذریعے فحش ویڈیوز بنانے میں کوئی مشکلات پیش نہیں آتیں، بلکہ انہیں انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلانے میں بھی کوئی مسائل نہیں ہوتے، کیوں کہ وہاں انٹرنیٹ کی رفتار بھی تیز ترین ہے۔

جنوبی کوریا میں خواتین کی نازیبا اور فحش ویڈیوز بنانے اور انہیں انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلانے کا معاملا صرف عام جرائم پیشہ افراد تک محدود نہیں ہے، بلکہ رواں برس اس اسکینڈل میں معروف شخصیات کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔

خواتین کی فحش ویڈیوز بنانے اور انہیں انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلانے میں 30 سالہ معروف گلوکار جنگ جون ینگ بھی ملوث ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ ایک ایسے سوشل میڈیا گروپ کے رکن تھے جس کے ذریعے فحش ویڈیوز کا پھیلاؤ ہوتا تھا۔

چینی نشریاتی ادارے ’سی جی ٹی این‘ کے مطابق جنگ جون ینگ اسی کیس میں عدالت میں پیش ہوئے جہاں ان کی گرفتاری کے آرڈرز کے حوالے سے سماعت ہوئی۔

جنگ جون ینگ نے فحش ویڈیوز کے پھیلاؤ والے سوشل میڈیا گروپ کے رکن ہونے کا اعتراف کیا ہے—فوٹو: اے ایف پی

جنگ جون ینگ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایسے گروپ کے رکن رہے ہیں، جس کے ذریعے فحش ویڈیوز کا پھیلاؤ ہوتا تھا۔

ان پر الزام ہے کہ انہوں نے متاثرہ خواتین کی رضامندی کے بغیر ان کی نامناسب اور فحش ویڈیوز کو پھیلایا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جنگ جون ینگ جس سوشل میڈیا گروپ کے رکن تھے وہ معروف گلوکار اور شوبز انڈسٹری کے آئکون لی سینگ ین جنہیں سوئنگری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے وہ بھی اس گروپ کے رکن تھے اور مبینہ طور پر وہ گروپ انہوں نےہی بنایا تھا۔

وہ شوبز انڈسٹری کی پہلی شخصیت ہیں جو اس اسکینڈل کا حصہ بنے تھے۔

سوئگری نے بھی خواتین کی فحش ویڈیوز پھیلائیں اور جسم فروشی کا کام کیا—فوٹو: ٹیمپو ڈاٹ کام

رواں ماہ کے آغاز میں سوئنگری کا نام خواتین کی فحش ویڈیوز اور تصاویر بنانے اور انہیں پھیلانے کے اسکینڈل میں سامنے آیا، جس کے بعد انہوں نے فوری طور شوبزسے رٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔

ان پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے خواتین کی رضامندی کے بغیر ان کی فحش ویڈیوز اور تصاویر کو انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلایا۔

ساتھ ہی ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے اپنے نائٹ کلب میں جسم فروشی کا کام بھی کیا۔

سوئنگری پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے مختلف کاروباری منصوبوں کے لیے سرمایہ کاروں کو راضی کرنے کے لیے اپنے نائٹ کلب میں جسم فروشی بھی کی۔

رپورٹس کے مطابق اگرچہ سوئنگری نے عام خواتین کو جسم فروشی کے لیے مجبور نہیں کیا، تاہم انہوں نے غیر قانونی طریقے سے سیکس ورکرز سے یہ کام کروایا۔

اگرچہ سوئنگری کو گرفتار نہیں کیا گیا، تاہم تحقیقی ادارے اور پولیس ان کے خلاف تفتیش کر رہی ہے۔

فحش ویڈیوز بنانے اور انہیں پھیلانے کے اس حالیہ اسکینڈل کو جنوبی کوریا کی تاریخ کا سب سے بڑا فحش اور جنسی اسکینڈل بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

سوئگری نے الزامات سامنے آنے کے بعد رٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا—فوٹو: اے ایف پی