مشال قتل کیس: پی ٹی آئی کونسلر اور اسد کو عمر قید، 2 کو بری کرنے کا حکم
پشاور: انسداد دہشت گردی (اے ٹی سی) عدالت نے مشال خان قتل کیس کے آخری 4 ملزمان سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے 2 ملزمان کو عمر قید جبکہ 2 کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔
صوبائی دارالحکومت کی اے ٹی سی عدالت نمبر 3 کے جج محمود الحسن خٹک نے مشال خان قتل کیس میں گرفتار آخری 4 ملزمان سے متعلق 12 مارچ کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
فیصلہ سنانے سے قبل مشال خان قتل کیس کے چاروں ملزمان کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جبکہ اس موقع پر سخت سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے۔
عدالتی فیصلے میں عمر قید کی سزا پانے والوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کونسلر عارف خان اور دوسرا مجرم اسد شامل ہے جبکہ ملزمان صابر مایار اور اظہار اللہ کو بری کردیا گیا ہے۔
ملزمان کی بریت کے خلاف ہائیکورٹ جانے کا فیصلہ
ادھر مشال خان کے والد اقبال خان نے فیصلے کے تحت بری ہونے والے دونوں ملزمان صابر اور اظہار کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
انہوں نے کہا کہ آج جو فیصلہ ہوا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میرا بیٹا بے گناہ ہے، قصورواروں کو سزا سنانے پر جج کو سلام پیش کرتا ہوں۔
مقتول مشال کے والد نے مزید کہا کہ ملزمان کو سزا ملنے کے فیصلے سے تسلی ملی ہے۔
مشال خان قتل کیس
یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔
مشال خان کی قتل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ملک میں شدید غم و غصے کی لہر پیدا ہوگئی تھی۔
مزید پڑھیں: مشال خان قتل کیس: ایک مجرم کو سزائے موت اور 5 مجرموں کو 25 سال قید کی سزا
اس واقعے کے فوری بعد ہی اس وقت کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے مشال کے قتل کی جوڈیشل انکوائری کے لیے سمری پر دستخط کرکے باقاعدہ منظوری دی تھی، جبکہ اگلے روز 15 اپریل کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مشال قتل کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کی۔
بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان کے والد کی جانب سے درخواست پر مقدمے کو مردان سے اے ٹی سی ایبٹ آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
اے ٹی سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز ستمبر 2017 میں کیا جبکہ یونیورسٹی کے طلبا اور اسٹاف کے اراکین سمیت گرفتار 57 مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی اور گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کردی گئی تھی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے 50 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور وکلا کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں گرفتار ملزمان کو مشال خان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔
مشال خان کے والد قیوم خان، ان کے دوست اور اساتذہ نے بھی اے ٹی سی کے سامنے اپنے بیانات ریکارڈ کروائے تھے۔
بعد ازاں 7 فروری 2018 کو ہری پور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مشال خان کے قتل کیس کا فیصلہ سنایا تھا، جس میں ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ عدالت نے 26 افراد کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم اس کیس میں اظہار اللہ اور صابر سمیت 4 ملزمان مفرور تھے، جن کی گرفتاری کے لیے ٹرائل کورٹ نے وارنٹ جاری کیے تھے اور انہیں مشال خان قتل کیس میں اشتہاری قرار دیا تھا۔
علاوہ ازیں ہائی کورٹ نے بعد ازاں مفرور ملزمان کا ٹرائل اے ٹی سی پشاور کو منتقل کردیا تھا۔
جس کے بعد ملزمان اسد کٹلنگ، صابر مایار، عارف خان مردانوی اور اظہار اللہ عرف جوہنی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف ٹرائل چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ٹرائل میں بیرسٹر امیر اللہ خان، شہاب خٹک اور افضل خان نے مشال خان کے والد کی نمائندگی کی تھی۔
پشاور ہائی کورٹ نے گزشتہ سال اگست 2018 میں 2 ملزمان اظہار اللہ عرف جوہنی اور صابر مایار کی دی گئی ضمانت کی درخواست کو مسترد کردیا تھا اور ٹرائل کورٹ کو 2 ماہ کے اندر ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
ستمبر 2018 میں انسداد دہشت گردی عدالت نے مشال خان قتل کیس میں ملوث چاروں ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: مشال خان قتل کیس میں 4 ملزمان پر فرد جرم عائد
اس کے بعد اس کیس مزید ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت پشاور میں ہوا، جہاں وکلا نے دلائل دیے اور گواہوں اور مشال کے والد کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔
واضح رہے کہ رواں برس فروری میں پشاور ہائیکورٹ کے ایبٹ آباد بینچ نے مشال خان قتل کیس میں 3، 3 سال قید کی سزا پانے والے 25 مجرمان کی ضمانت منظور کرلی تھی، تاہم اس فیصلے کے خلاف متعدد درخواستیں دائر کی گئیں جس کے بعد ہائی کورٹ نے درخواستیں نمٹانے کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم انسداد دہشت گردی عدالت میں مشال قتل کیس کا ٹرائل چلتا رہا اور 12 مارچ کو عدالت نے کیس کے آخری 4 ملزمان سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے پہلے 16 مارچ کو سنایا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اسے موخر کرکے 21 مارچ کو سنایا گیا۔