پاکستان

نیشنل ایکشن پلان پر حکومتی بریفنگ، اپوزیشن کے بائیکاٹ کا امکان

جمعیت علمائے اسلام کے انکار کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) بھی 28مارچ کے اجلاس کے بائیکاٹ کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

ملک کی سیاسی صورتحال میں بڑھتے ہوئے تناؤ کو دیکھتے ہوئے اہم اپوزیشن جماعتوں نے دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر منصوبہ بندی کے تحت دی جانے والی حکومتی بریفنگ کے بائیکاٹ کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔

ذرائع کے مطابق جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ 28مارچ کو ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی جبکہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی اجلاس کے بائیکاٹ کے آپشن پر غور کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد جاری، 121 افراد کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا

پیپلز پارٹی پہلے ہی حکومت کو تجویز پیش کر چکی ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان یا فوجی عدالتوں پر بریفنگ کے لیے پارلیمنٹ کا ان کیمرا مشترکہ اجلاس بلائے۔

پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق بدھ کو اسلام آباد میں ان کی جماعت کے خلاف پولیس کی سفاکانہ کارروائی کے بعد پارٹی قیادت کا کسی بھی فورم پر حکومتی نمائندوں کے ساتھ بیٹھنا بہت مشکل ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے تصدیق کی کہ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے طلب کیے گئے اجلاس پر حکمت عملی وضع کرنے کے لیے ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) سے رابطے میں ہے اور دونوں جماعتوں کے بریفنگ سے دور رہنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ حکومت قومی مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ کا استعمال کرے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان پر زور دے گی کہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کریں۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم

پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بھی وزیر خارجہ اور تحریک انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کو خط لکھ کر زور دیا ہے کہ وہ منتخب رہنماؤں کا اجلاس طلب کرنے کے بجائے پوری پارلیمنٹ کو بریفنگ دیں۔

شاہ محمود قریشی کی جانب سے دعوت نامے کے جواب میں شہباز شریف کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ مجموعی طور پر اپوزیشن مل جل کر فیصلے کرنے اور اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ قومی مفاد میں ہم سب کو فیصلوں کو اپنانے کا احساس ہو۔

لہٰذا یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ آپ اپنی مجوزہ بریفنگ قومی اسمبلی کو دیں تاکہ ملک کے چند منتخب پارلیمانہ رہنماؤں کے بجائے پوری پارلیمنٹ کی مجموعی دانش سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔

بدھ کو اپنی جماعت کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت ماضی میں نیشنل ایکشن پلان کو مسترد کر چکی ہے اور اس نے 28مارچ کی بریفنگ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق حکومت کی اپوزیشن سے مشاورت

اپوزیشن جماعتوں کو شاہ محمود قریشی کی جانب سے بھیجے گئے دعوت نامے میں کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر تیزی سے عملدرآمد کے ہمارے مستقل عزم کو عملی جامع پہنانے کے لیے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔

خط میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم فوجی عدالتوں میں توسیع کا تو کوئی ذکر نہیں کیا گیا جس کی دوسالہ مدت 30مارچ کو مکمل ہو رہی ہے تاہم اکثر اپوزیشن جماعتوں کا ماننا ہے کہ یہ اجلاس اسی لیے طلب کیا گیا ہے تاکہ فوجی عدالتوں کو دوسری مرتبہ توسیع دی جا سکے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ ان کی جماعت حکومت کی بریفنگ میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہوتا تو ہمارے پاس انتہاپسندی کے سدباب کے ثبوت ہوتے'

اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس اہم مسئلے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے۔

واضح رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد جنوری 2015 میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جس کے تحت دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والے شہریوں کے مقدمے اس میں چلانے کی اجازت دی گئی تھی اور دوسالہ آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد یہ عدالتیں جنوری سے مارچ 2017 تک غیرفعال رہی تھیں۔


یہ خبر 21مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی