پاکستان

سانحہ ماڈل ٹاؤن: جے آئی ٹی کی جیل میں نواز شریف سے 2 گھنٹے تفتیش

جےآئی ٹی نے سابق وزیراعظم سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد بطور ملک کے چیف ایگزیکٹو اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق بھی سوالات کیے۔
|

لاہور: سابق وزیرِاعظم نواز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے اراکین نے 2 گھنٹے تک تفتیش کی۔

انسپکٹر جنرل (آئی جی) موٹروے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں قائم جے آئی ٹی کے اراکین نواز شریف کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کوٹ لکھپت جیل پہنچے۔

جے آئی ٹی نے سابق وزیرِاعظم نواز شریف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق تفتیش کی اور اس حوالے سے کچھ سوالات کیے جو 2 گھنٹے تک جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے سابق وزیراعظم سے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق تفصیلاً سوالات کیے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جے آئی ٹی نے سابق وزیراعظم سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد بطور ملک کے چیف ایگزیکٹو اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق بھی سوالات کیے۔

کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیراعظم نواز شریف کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد جے آئی ٹی ٹیم جیل سے روانہ ہوگئی۔

خیال رہے کہ چند روز قبل ماڈل ٹاؤن پر بنائی گئی جے آئی ٹی نے سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا بھی بیان ریکارڈ کیا تھا۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 14 مارچ کو تفتیشی افسر کو ماڈل ٹاؤن کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں سابق وزیراعظم اعظم سے ملاقات کی اجازت دے دی تھی۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 5 دسمبر کو پنجاب حکومت نے ماڈل ٹاؤن کیس میں ازسرِ نو تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ میں اس سے متعلق درخواست نمٹا دی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کے حکم پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں آئی جی موٹروے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی تشکیل دے گئی تھی۔

کمیٹی کے دیگر اراکین میں آئی ایس آئی کے نمائندے لیفٹیننٹ کرنل محمد عتیق الزمان، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے لیفٹیننٹ کرنل عرفان مرزا، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) محمد احمد کمال اور ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز پولیس گلگت بلتستان قمر رضا شامل ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن

یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔

آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔

درخواست گزار بسمہ امجد نے اپنی والدہ کے قتل کے خلاف سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل میں درخواست دائر کی تھی اور واقعے کی تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کی تھی۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تھا۔

یہ بھی یاد رہے کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔

تاہم بعد ازاں عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد حکومت جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظر عام پر لے آئی۔