دنیا

تھریسا مے معاہدے میں ایک اور مخالفت کے بعد بریگزٹ میں تاخیر کی خواہاں

تھریسا مے نے خبردار کیا تھا کہ اگر معاہدے کی توثیق نہیں کی گئی تو وہ بریگزٹ کو 3 ماہ تک ملتوی کرنے کی درخواست کریں گی۔

برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے 'بریگزٹ' کے اپنے منصوبے پر ایک اور مخالفت میں ووٹ کے بعد یورپی یونین سے معاہدے میں کم از کم 3 ماہ کی تاخیر کا مطالبہ کریں گی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ووٹ ڈالنے کے 3 سال بعد بھی یہ عمل مشکلات کا شکار ہے۔

طویل عرصے تک تاخیر ہونے کے نتائج تھریسا مے کے معاہدے کے ساتھ علیحدگی، بغیر معاہدے کے علیحدگی اختیار کرنا یا ایک اور ریفرنڈم ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اراکین نے ساتھ نہیں دیا تو بریگزٹ طویل ہوگا، برطانوی وزیراعظم

برطانوی وزیر اعظم کے ترجمان کے مطابق یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے دو سال قبل طے کی گئی 29 مارچ کی تاریخ سے صرف 10 روز اور یورپی یونین کی اہم ترین کانفرنس سے 2 روز قبل تھریسا مے، یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک کو معاہدے میں تاخیر کے لیے خط لکھ رہی ہیں۔

تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ وہ کتنی تاخیر کا مطالبہ کرتی ہیں لیکن انہوں نے پارلیمنٹ کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے ان کے معاہدے کی توثیق نہیں کی تو وہ بریگزٹ کو 30 جون تک ملتوی کرنے کی درخواست کریں گی۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے 'بریگزٹ' معاہدہ ایک بار پھر مسترد کردیا

یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک میں دو اہم باتوں پر بحث جاری ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر تھریسا مے نے ان پر زور دیا تو وہ ایک ہی معاہدہ کرسکیں گے اور اس سے 2 سے 3 ماہ کی تاخیر ہوگی، جبکہ دوسری یہ کہ اگر تھریسا مے نے یہ قبول کیا کہ دوبارہ کام کرنا ضروری ہے تو اس سے طویل عرصے کی تاخیر ہوگی۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کے پالیٹیکل ایڈیٹر لورا کونزبرگ کا کہنا تھا کہ ’تھریسا مے 30 جون تک کی تاخیر طلب کریں گی جس سے انہیں پارلیمنٹ سے ان کے معاہدے پر حمایت کا ایک اور موقع ملے گا‘۔

یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے کو گزشتہ برس نومبر میں بریگزٹ معاہدے پر عمل درآمد میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد پارلیمنٹ کے اندر انہیں معاہدے کو منظور کرانے میں مسلسل شدید مشکلات کا سامنا ہے اور دو مرتبہ بریگزٹ معاہدے کے خلاف بھاری اکثریت سے قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں۔

برطانیہ میں یورپی یونین سے اخراج کے لیے طویل تھکا دینے والے مذاکرات کے بعد جون 2016 میں ریفرنڈم ہوا تھا لیکن معاہدے کی منظوری پارلیمنٹ میں اٹک کر رہ گئی تھی۔

اراکین پارلیمنٹ نے 12 مارچ کو بھی ایوان میں بریگزٹ معاہدے کے خلاف ووٹ دیا تھا اور اس کے اگلے روز بغیر کسی معاہدے کے یورپی یونین چھوڑنے کی مخالفت میں بھی ووٹ دیا تھا۔

برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین نے بریگزٹ کے حوالے سے دوسری مرتبہ ریفرنڈم کے مطالبے کو بھی مسترد کردیا تھا، ان تمام اقدامات اور صورت حال کے باعث اپنی یورپی شناخت کو برقرار رکھنے کے خواہاں کئی برطانوی شہریوں کی امیدوں کو ایک دھچکا لگا ہے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے ریفرنڈم

تھریسا مے کو نہ صرف حزب اختلاف بلکہ اپنی جماعت کے اندر اور شمالی آئرلینڈ کی ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین کی جانب سے بھی معاہدے پر مخالفت کا سامنا ہے۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی خودمختاری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور ہوں گی لیکن مستقبل میں اس کا فائدہ ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں ہی خرچ ہوسکے گا۔