ایک مسجد ایسی جہاں کوئی فرقہ نہیں
اسلام آباد: دارالامام جامع مسجد قرطبہ کی کہانی بھی اتنی ہی ڈرامائی ہے جتنی پاکستان کی فرقہ وارانہ تاریخ۔ اسلام آباد کی مرگلہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع حال ہی میں تعمیر شدہ اس مسجد کی عمارت اپنے پیروکاروں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ تعصب کو ترک کرکے آؤ ایک چھت کے نیجے عبادت کریں چاہے وہ کسی بھی انداز میں کیوں نہ ہو۔
مقامی تاجر زاہد اقبال نے اس مسجد کی بنیاد 2010ء میں رکھی تھی۔ انہوں نے اس مسجد کے لیے پلاٹ ای 11 سیکٹر میں لیا تھا تاہم انہیں جلد ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ ان کے خواب کی تعبیر اتنی آسان نہ ہو گی۔
پہلے تو حکام نے اسے "فرقوں سے آزاد" مسجد کی حیثیت سے رجسٹر کرنے سے انکار کردیا۔ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قوانین کے مطابق ہر مسجد کے فرقے کے بارے میں آگاہ کرنا پڑتا ہے جس کے بعد اس کو تعمیر کرنے کی اجازت ملتی ہے۔
اس صورت حال کے پیش نظر تعمیر کے سلسلے کو انتہائی پیجیدگی کے ساتھ انجام دینا پڑا۔ تعمیر سے قبل اقبال نے پہلے تو ایک ٹرسٹ رجسٹر کروا کر اس مسجد کے ٹرسٹ میں سب رجسٹر کروا دیا جہاں ٹرسٹ کا نام الخطاب فاؤنڈیشن رکھا گیا۔
دوسری جانب اقبال نے اپنی مسجد کے امام اور کوآرڈینیٹر کو پہلے ہی تلاش کرلیا تھا۔ امام اسلامک یونیورسٹی سے ماسٹرز جبکہ کوارڈینیٹر پرسٹن یونیورسٹی سے ایم بی اے کررہے تھے۔ دونوں نوجوان مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے پر رضامند تھے۔
اقبال کے اس انقلابی خیال کے پیچھے ایک سیدھا سادہ فلسفہ ہے۔ مسجد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسلام کو فرقوں میں بانٹنے کی وجہ سے مذہب کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ملاؤں نے مذہب کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہوئے کاروبار کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
اپنی مسجد کو "ماڈل مسجد" قرار دیتے ہوئے اقبال کا کہنا ہے کہ یہ خدا کا گھر ہے اور یہاں پر غیر مسلموں کو بھی آنے کی اجازت ہے۔
اس کے علاوہ مسجد میں تمام فرقوں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ خواتین کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جہاں خواتین کے لیے ایک الگ مخصوص حصہ مقرر ہے جبکہ لائبریری میں تمام فرقوں کی کتابیں موجود ہیں۔ مسجد کو دیگر کاروباری شخصیات اور غیر ملکی پاکستانیوں کی مدد سے تین کروڑ روپے میں تعمیر کیا گیا۔
مسجد کم از کم دس مستحق طلبہ کو مالی معاونت بھی فراہم کرتی ہے جو اپنی بیچلرز کی ڈگری مکمل کررہے ہیں۔
تاحال اقبال لوگوں کے ردعمل سے انتہائی خوش دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ذاتی حیثیت میں انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم اس حوالے سے ایک کمیونٹی کے طور پر مثبت ردعمل بھی سامنے آرہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی بھی بڑی تعداد میں مختلف فرقوں کے لوگ اکٹھا عبادت کرتے ہیں تاہم یہ اتنے نہیں ہیں کہ 350 افراد کے لیے بنایا گیا ہال پوری طرح بھر جائے۔
پاکستان میں فرقہ ورانہ مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مسجد کی تعمیر کو ایک جرات مندانہ اقدام قرار دینا شاید غلط نہ ہوگا۔ اس کا پیغام مسجد میں داخل ہوتے وقت دروازے پر لگے ایک ٹیگ سے صاف طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ "یہ مسجد کسی فرقے کے درمیان تعصب نہیں کرتی اور تمام مسلمانوں کو خوش آمدید کہتی ہے"۔
تاہم اقبال کے اس خواب میں کچھ دشواریاں بھی پیش آئیں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں ایک دن طالبان کے دس ارکان ان کی مسجد میں آئے اور ان کے فلسفے کے بارے میں بحث کرنے لگے۔ تاجر نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے طالبان سے گھنٹوں تک اس معاملے پر بحث کی اور انہیں اسلام کی اپنی تشریح پر مخالفت نہ کرنے پر آمادہ کرلیا۔ تاہم انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ وہ دوبارہ آئیں گے۔
یہ وہ واحد رکاوٹ نہیں تھی جس کا مسجد انتظامیہ کو سامنا کرنا پڑا، اقبال کے مطابق ایک مرتبہ ایک دوسری مسجد کے "امام" نے طاقت کے زور پر مسجد کے پلاٹ پر قبضہ کر لیا تھا۔ جب انہوں نے 2010ء میں مسجد کے لیے پلاٹ خریدا تو اس پر امام اور اس کے "باڈی بلڈر" جیسے مدرسے کے طلبہ نے قبضہ جمالیا۔ بعد ازاں پولیس کو بلا کر پلاٹ خالی کروایا گیا۔
اب مسجد انتظامیہ اپنے پیغام کو دیگر مساجد تک پھلا رہی ہے۔ ایک نقطہ اغاز کے طور پر مسجد کے امام دیگر مساجد کے اندر خطبے دے رہے ہیں جس میں فرقہ واریت کو ختم کرنے اور آپس میں اتحاد قائم کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
مسجد کی انتظامیہ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اسے کچھ فنڈز امریکہ کی جانب سے بھی ملتے ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ امریکہ کی تمام پالیسیوں سے اتفاق کرتے ہیں۔ "ہم امریکی امداد کو برا کیسے کہہ سکتے ہیں جب ہم خود امریکا میں مقیم پاکستانیوں سے امداد لیتے ہیں؟ تاہم ہم امریکا کی اسرائیل کے لیے حمایت کی مخالفت کرتے ہیں"۔
اس مرتبہ عید پر مسجد کی انتظامیہ تمام فرقوں کے لیے ایک ہی نماز کا منصوبہ بنارہی ہے جو ان کے مطابق فرقہ واریت سے نمٹنے میں ایک اور قدم ثابت ہوگا۔