اس سلسلے میں جیل میں خدمات انجام دینے والے کینٹربری یونیورسٹی کے کرمنالوجسٹ گیرگ نیوبولڈ کا کہنا تھا کہ ’ان دھمکیوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں انہیں انتہائی سنجیدہ نوعیت کا سمجھتا ہوں اور کہوں گا کہ وہ(ملزم) انتہائی خطرے میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جیل میں یقیناً ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جو اس واقعے پر سیخ پا ہوں گے خاص کر جب کہ ملزم سفید فام برتری کا حامل انتہا پسند ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ جیل میں موجود اکثریت افراد سفید فام نہیں، اس لیے برینٹن ٹیرنٹ کو اپنی طرح کسی سفید فام برتری کے حامل شخص کا ساتھ ملنا مشکل ہے‘کیوں کہ ان کی تعداد کافی کم ہے۔
واضح رہے کہ ساؤتھ آئی لینڈ جیل میں بہت کم سفید فام ہیں لہٰذا اگر برینٹن کو اس حملے پر مجرم قرار دے دیا جاتا ہے تو اسے سزا پوری کرنے کے لیے آکلینڈ میں موجود جیل میں انتہائی سخت سیکیورٹی میں قید رکھے جانے کا امکان ہے۔
مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ دہشتگردی: حملہ آور نے 24 گھنٹے قبل اپنے عزائم ظاہر کردیئے تھے
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجرم ثابت ہونے کے بعد اسے طویل عرصے تک قیدِ تنہائی میں رکھا جائے گا اور اس دوران وہ زیادہ تر اپنے سیل میں مقید ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ ملزم کو آسانی سے قتل کیا جاسکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ انسانوں سے اس کا رابطہ کم سے کم ہو۔
دوسری جانب گیرگ نیوبولڈ کی بات کی تائید کرتے ہوئے جیل کے اعلیٰ افسر نیل بیلز نے تصدیق کی کہ برینٹن ٹیرنٹ کو انتہائی خصوصی سیکیورٹی میں رکھا گیا گیا ہے اور ریمانڈ کے دوران اس کی 24 گھنٹے نگرانی کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ 15 مارچ کو کرائسٹ چرچ شہر میں نماز جمعہ کے موقع پر دو مساجد میں دہشت گردی کے واقعے میں جاں بحق افراد کی تعداد 50 تک پہنچ گئی ہے جس کی تصدیق نیوزی لینڈ کے پولیس کمشنر بش نے کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ: دہشت گرد کی بندوق پر درج عبارات کا مطلب کیا ہے؟
پولیس کمشنر کا کہنا تھا کہ اطلاع ملتے ہی اہلکار 6 منٹ میں جائے وقوع پر پہنچ گئے تھے اور ملزمان سے 10 منٹ میں ہتھیار لے لیا تھا۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسَن نے تصدیق کی تھی کہ مرکزی حملہ آور آسٹریلوی شہری ہے اور اسے دائیں بازو کا 'دہشت گرد' قرار دیا تھا۔
نیوزی لینڈ کی انتظامیہ نے مرکزی دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو گرفتار کرکے اس پر قتل کا الزام عائد کیا۔
یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا اس نے انتہائی دائیں بازو کے گروہوں سے روابط قائم کیے تھے یا نہیں تاہم اس طرح کے گروہ آسٹریلیا میں کئی دہائیوں سے سرگرم ہیں۔