صحت

پیدائش کی ترتیب کیا واقعی شخصیت پر اثرات مرتب کرتی ہے؟

عام خیال ہے کہ پیدائش کی ترتیب کسی حد تک شخصی خوبیوں یا خامیوں پر اثرانداز ہوسکتی ہے مگر سائنس اس بارے میں کیا کہتی ہے؟

ہر بچہ اپنے بہنوں اور بھائیوں سے مختلف شخصیت کا حامل ہوتا ہے اور عام خیال ہے کہ پیدائش کی ترتیب کسی حد تک شخصی خوبیوں یا خامیوں پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

درحقیقت سائنسدانوں کا بھی کافی عرصے سے یہی ماننا ہے۔

ان کے مطابق پہلوٹھی یا بڑے بچے قائدانہ کردار کے حامل ہوسکتے ہیں اور زندگی میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

منجھلے بچوں میں عام طور پر اپنے سے بڑے اور چھوٹے بہن بھائیوں کی ملی جلی عادتیں ہوتی ہیں اور وہ رشتے مضبوط بنانے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

سب سے چھوٹے بچے توجہ کا حصول اور احترام چاہتے ہیں۔

مگر اب ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں جو اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں اور اب سائنسدانوں کے ایک حلقے کا ماننا ہے کہ پیدائش کی ترتیب بالغ ہونے پر شخصیت پر اثرانداز نہیں ہوتی۔

حالیہ تحقیقی رپورٹس میں اس حوالے سے بڑے پیمانے پر ڈیٹا اور اعدادوشمار کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

اسپین میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ پیدائش کی ترتیب لوگوں کی شخصیت اور رویوں پر اثرانداز نہیں ہوتی۔

رواں ہفتے جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع تحقیق میں کہا گیا کہ اس حوالے سے اتفاق بڑھ رہا ہے کہ پیدائش کی ترتیب بلوغت میں شخصیت اور رویوں پر اثرانداز نہیں ہوتی۔

اس تحقیق میں 11 ہزار گھرانوں کا جائزہ لینے کے بعد بلوغت میں ان کے رویوں کا تجزیہ کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے خطرات پسند ہوتے ہیں اور کامیابی کے لیے کچھ بھی داﺅ پر لگانے کی ذہنیت نہیں رکھتے۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیدائش کی ترتیب اور خطرات مول لینے کی فطرت کے درمیان کوئی تعلق نہیں۔

اس سے قبل 2015 کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پیدائش کی ترتیب سے شخصیت کی 5 بنیادی عادتوں پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے یعنی یہ تاثر غلط ہے کہ پہلوٹھی کے بچے زیادہ ذہین ہوسکتے ہیں یا منجھلے بچے حالات سے مطابقت اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔