پاکستان

’ نوازشریف اور ان کا خاندان لندن میں علاج کروانے پر اصرار کررہے ہیں‘

ان کی صحت سے متعلق پیچیدگیاں لندن میں علاج کے دوران ہوئیں،وہ پاکستان میں علاج نہیں کروانا چاہتے، فواد چوہدری

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ نوازشریف اور ان کا خاندان لندن میں علاج کروانے پر زور دے رہا ہے،نواز شریف پاکسان میں علاج نہیں کروانا چاہتے۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ 16 جنوری کو جیل حکام نے پنجاب حکومت سے نواز شریف کو سانس پھولنے کی شکایت سے آگاہ کیا تھا، جس پر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی(پی آئی سی) کے ڈاکٹر شاہد کو پنجاب حکومت نے تعینات کیا،انہوں نے مختلف ٹیسٹ کے بعد پی آئی سی منتقل کرنے کی تجویز دی تھی۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 22 جنوری کو نواز شریف کو پی آئی سی منتقل کیا گیا تھا، جہاں ان کا ایکو ٹیسٹ ہوا اور طبی معائنےکے بعد انہیں اسی سہ پہر ساڑھے 3 بجے جیل چلے گئے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ 25 جنوری کو پنجاب حکومت نے6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا جس کے بعد 30 جنوری کو میڈیکل بورڈ نے نوازشریف سے جیل میں ملاقات کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ملاقات کے بعد میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کو ہسپتال منتقل کرنے کی تجویز دی کیونکہ 2001 اور 2017 میں ان کی انجیو پلاسٹی ہوئی تھی، 2016 میں ان کا بائی پاس ہوا تھا اس لیے بورڈ نے انہیں ہسپتال منتقل کرنا مناسب سمجھا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف اور ان کی فیملی اصرار کررہی ہے کہ انہیں لندن کے اسی ہسپتال میں بھیجا جائے جہاں پہلے ان کا علاج ہوا تھا۔

مزید پڑھیں : ’پاکستان کے سیاسی نظام سے جڑی مافیا صرف عمران خان کے نام سے ڈرتی ہے‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ نواز شریف کی صحت سے متعلق پیچیدگیاں لندن کے ڈاکٹروں کی وجہ سے ہوئی۔

فواد چوہدری نے کہا کہ میڈیکل بورڈ کی تجویز کے مطابق انہیں سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا،سروسز ہسپتال اس لیے منتقل کیا گیا تھا کہ انہیں دل کا عارضہ ہے اور سروسز ہسپتال اور پی آئی سی کا کمپاؤنڈ ایک ہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی سی صرف دل کے امراض کا ہسپتال ہے لیکن نواز شریف کی شوگر زیادہ تھی انہیں گردے کا مسئلہ بھی ہے اس لیے انہیں ایسے ہسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا جہاں تمام سہولیات موجود ہوں۔

وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ نے انہیں سروسز ہسپتال منتقل کیا جہاں وہ 6 دن رہے، ان کی تمام ٹیسٹ ہوئے، نواز شریف کا بنیادی مسئلہ شوگر اور ہائی بلڈ پریشر تھا، اس کے علاوہ اس وقت کیے میڈیکل ٹیسٹ میں دل کا کوئی مسئلہ سامنے نہیں آیا۔

انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کو انجیو گرافی کروانے کا کہا گیا تھا جس سے دل کے عارضے سے متعلق 100 فیصد معلومات سامنے آتی ہیں لیکن انہوں نے انکار کیا کہ مجھے یہاں سے انجیو گرافی نہیں کروانی۔

فواد چوہدری نے کہا کہ وہ پاکستان میں علاج نہیں کروانا چاہتے ہیں لیکن ان کی صحت سے متعلق پیچیدگیاں لندن میں علاج کے دوران ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’نعیم الحق کابینہ میں رہیں گے،فواد چوہدری چلے جائیں گے‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کے ڈاکٹروں، ہسپتالوں اور اس نظام کے اوپر جس پر وہ 30 سال حکمرانی کرتے رہے انہیں اعتماد نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 14 فروری کو نواز شریف کو جناح ہسپتال میں منتقل کیا گیا کیونکہ جناح، میو اور شیخ زید ہسپتال وہ ہیں جہاں مختلف بیماریوں سے متعلق ماہرین موجود ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پنجاب حکومت نے ایک کورآڈینیشن ٹیم بھی قائم کی جس میں کارڈیالوجی،یورولوجی اور میڈیسن کے پروفیسر شامل تھے۔

وزیر اطلاعات نےکہا کہ ن لیگ کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ میڈیکل بورڈ میں گائناکولوجسٹ کو شامل کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ گائناکولوجسٹ عارف تجمل کوآرڈینیشن کمیٹی کے سربراہ تھے، جو کہ جناح ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹو ہیڈ ہونے کی حیثیت سے اس ٹیم کے سربراہ بنایا گیا تھا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ جناح ہسپتال میں جتنا بھی تعمیراتی کام ہوا ہے وہ نواز شریف اور شہباز شریف نے کروایا تھا لیکن انہیں کوئی جگہ پسند نہیں آئی کسی کمرے میں بدبو آرہی تھی اور کسی کا بستر ٹھیک نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے اپنی مرضی سے کہا کہ وہ جناح ہسپتال کے کنسلٹنٹ آفس میں رہیں گے،انہوں نے مزید کہا کہ مجھے اس پر پنجاب حکومت سے شکوہ بھی ہے کہ بااثر افراد کے لیے معاملہ الگ اور عام افراد کے الگ ہوجاتا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پورا وارڈ خالی کروایا گیا اور نواز شریف کے لیے کنسلٹنٹ کے دفتر سے فرنیچر ہٹا کر ان کے لیے بیڈروم بنایا گیا اور انہوں نے وہاں قیام کیا تمام ٹیمیں ان کی خدمت میں مصروف تھیں۔

انہوں نے کہا کہ 24 فروری کو نوز شریف کی درخواست ضمانت مسترد ہوئی اور 25 کو انہوں نے کہا کہ میں واپس جیل جانا چاہتا ہوں، وہ بنیادی طور پر عدالت سے ناراض ہوگئے تھے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم نے 2013 کے انتخابات کی مہم کے دوران جب وہ اسٹیج سے گرگئے تھے، بہت شدید زخمی ہوئے تھے،ان کےپاس علاج کے لیے بیرون ملک جانے کا آپشن موجود تھا کیونکہ ان کی چوٹ اس قسم کی تھی کہ وہ معذور ہوسکتے تھے لیکن عمران خان نے اس وقت کہا کہ مجھے باہر نہیں جانا بلکہ پاکستان میں علاج کروانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ رویے کا فرق ہے نواز شریف اور شہباز شریف نہیں جو ہسپتال بنوائے ہیں انہیں خود ہی ان پر اعتبار نہیں۔