درحقیقت ان دریاؤں کا آبی اخراج (discharges) غیرمعمولی حد تک زیادہ ہے اور انڈس بیسن سسٹم کی مجموعی آبی دستیابی میں ان کی حصہ داری کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بہاؤ پاکستان میں 3 مشرقی دریاؤں پر موجود تقریباً 12 پیمائشی مقامات پرآبی اخراج کی گنجائش کے قریب قریب یا اس سے بھی زیادہ مقدار میں پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ ان ’برائے نام بہاؤ‘ کی عدم دستیابی سے موجودہ حکومت کی ’ریچارج پاکستان‘ منصوبہ چند علاقوں میں بری طرح سے متاثر ہوں گا۔
ہندوستان میں ان دریاؤں کے بالائی بہاؤ پر انفرااسٹریکچرل منصوبوں کے سلسلے کے نتیجے میں بہاوؤں میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔
دریائے راوی میں 1976-1977 کے دوران جو پانی کا بہاؤ 11 ایم اے ایف تھا وہ 2017-2018 میں گھٹ کر 3 ایم اے ایف ہوچکا ہے جبکہ مذکورہ عرصوں کے دوران ہی ستلج میں 9 ایم اے ایف سے گھٹ کر 3 ایم اے ایف ہوچکا ہے۔ چونکہ پاکستان اور بھارت مشرقی دریاؤں پر بننے والے اہم منصوبوں کو لے کر شاذو نادر ہی بات چیت کرتے ہیں، اس لیے ان منصوبوں کی توانائی کی زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم توانائی کی فراہمی کے بدلتے رجحانات اور ان سے پڑنے والے بین السرحدی اثرات پر ان دونوں میں سے کسی ملک کی جانب سے نہ تو مکمل طور پر مباحثہ ہوا ہے اور نہ ہی تجزیہ کیا گیا ہے۔ ان سے مرتب ہونے والے مجموعی اثرات پر کسی کی نگاہ ہی نہیں پڑی اور اس کے نتیجے میں دریاؤں کے نچلے بہاؤ کے فطری ماحولیات، پودوں اور جانوروں کے مسکن اور انسانی آبادیوں کو مسلسل نقصان پہنچا۔
پانی کی مقداروں میں کمی صرف حال ہی میں کھڑے کیے گئے منصوبوں کی وجہ سے نہیں آئی ہے بلکہ گزشتہ 50 سالوں کے دوران بھارت کی شمالی اور مشرقی ریاستوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث محدود مون سون بارشیں بھی اس کمی کی وجوہات میں شامل ہیں۔
بھارتی ریاست ہریانہ اور پنجاب میں یکے بعدیگر آنے والے قحط، زیر زمین پانی کو بڑی مقدار میں نکالے جانے اور پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کا ایک سلسلہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی بھاری سبسڈیز کو بھی یہاں شامل کیا جاسکتا ہے۔
یہ دونوں ریاستیں زیر زمین پانی اتنا نکال لیتے ہیں جتنا کہ مون سون بارشیں اسے دوبارہ اتنا بھر بھی نہیں پاتا، نتیجتاً انتخابی سیاست کی مانگ کو پورا کرنے کی خاطر کھیتی باڑی کرنے والی برادریوں کو خوش کرنے کے لیے پانی کا رخ انڈس بیسن سے موڑ دینے کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ ان دو ریاستوں میں پانی کا جتنا زیادہ غیر مؤثر استعمال ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ پانی کا رخ بیسن سے موڑ دینے کا دباؤ مرکزی حکومت پر بڑھتا جاتا ہے۔
کئی حکومتوں کے لیے نئے انفرااسٹریکچرل منصوبے شروع کرنے یا پانی کا بیسن سے رخ موڑ دینے کے وعدے سے شاید آسان کام سبسڈیز کے خاتمہ، قیمتوں کے تعین کے طریقے لانا یا کھیتی باڑی کرنے والے برادریوں کو پانی کو محفوظ کرنے پر قائل کرنا اور زیر زمین پانی کی قیمت لاگو کرنا ثابت ہوگا۔
مقامی سیاست، پانی کے استعمال کے طریقے، ماحولیاتی تبدیلی اور انتخابی سیاسی عناصر وہ تمام اہم باتیں ہیں جن کی روشنی میں نئے معمول کو شکل دینا ہوگا۔ کیا دونوں ملک پانی کو صرف کیوسک میں ناپنے کے بجائے اپنے اپنے فطری ماحولیاتی بقا کو مد نظر رکھتے ہوئے بین السرحدی پانیوں کا جائزہ نہیں لے سکتے اور نئے معمول کو ایک نئی شکل نہیں دے سکتے؟
یہ مضمون 17 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔