سکھر کے ستین جو آستھان سے جڑی داستانیں
سکھر میں ستین جو آستھان سے جڑی کئی داستانیں
انقلابی و رومانوی شاعر فیض احمد فیض نے اپنی نظم ’میرے دل میرے مسافر‘ اگرچہ سیاسی پس منظر میں لکھی تھی مگر انسان کا دل حقیقتاً ایک مسافر ہی تو ہے۔ یہ کہیں ٹِک کر نہیں بیٹھتا۔ کبھی کبھی یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی سیر کے لیے ایک زندگی کافی نہیں۔
سندھ بھی اس دنیا کے ان خطوں میں سے ہے، جہاں دیکھنے لائق ان گنت مقامات موجود ہیں۔ جین مندروں سے لے کر گرجا گھروں، مسلمانوں کی تعمیر کردہ مساجد اور ہندوؤں کے مندروں تک سندھ میں آج بھی مذہبی رواداری کی مثال بنی ہوئی کئی ایسی عمارتیں موجود ہیں جو سندھ کا صدیوں سے ایک خاص تعارف ہیں۔
اس بار میں اپنے دل کی صدا سننے کے بعد سندھ کے اس شہر نکل پڑا جو تاریخی طور بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جہاں سفر کی کئی مشکلاتیں ہیں وہیں اس کی راحتیں اور لذتیں بھی ہیں، جو آپ کو مزید سفر کے لیے حوصلہ فراہم کرتی ہیں۔ میرے قدم اس بار سکھر کی زمین چُھو رہے تھے۔
اس پورے خطے میں تاریخی و ثقافتی ورثہ قرار اور آثار قدیمہ کے تحت سرکاری سپرداری و نگرانی میں دیے گئے کئی مقامات ایسے مل جائیں گے جن سے کئی من گھڑت قصے، کہانیاں اور فرضی داستان جوڑ دیے جاتے ہیں۔ ان کہانیوں اور فرضی داستانوں کی تصدیق کہیں سے نہیں ہوتی نہ کہیں سے کوئی ثبوت ملتا ہے لیکن پھر ہوتا یہ ہے کہ وہ تمام من گھڑت قصے کہانیاں عقائد کا روپ دھار لیتی ہیں، اور پھر عقائد ایک سے دوسری نسل تک منتقل ہوجاتے ہیں۔
سکھر کے جس مقام پر میں کھڑا تھا وہاں کا قصہ بھی کچھ مختلف نہیں، حالانکہ جو بات کتابوں میں درج ہے یا حالیہ تاریخ سے جو کچھ ثابت ہے وہ ان سب باتوں کا رَد ہے جو باتیں یہاں سننے کو ملتی ہیں۔ میرے ساتھ مقامی صحافی نے مجھے کئی قصے سنا کر آخر میں مجھ سے تالی مارتے ہوئے کہا کہ صاحب سب جھوٹ ہے۔ میں سکھر کے مشہور مقام ’ستین جو آستھان‘ پر کھڑا تھا۔